حضرت لقمان علیہ ا لسلام اگرچہ غلام آزاد تھے لیکن ان کا آقا ان کو پسند کرتا تھا اور ان سے محبت کرتا تھا ۔ کسی بادشاہ نے ایک بزرگ سے کہا کہ جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔ بزرگ نے جواب دیا کہ بادشاہ تم نے کیسی بات کی ہے۔ میں تم سے کیا مانگ سکتا ہوں کیونکہ میرے دو حقیر ترین غلام تیرے اعلیٰ ترین حاکم ہیں۔ بادشاہ نے متجس انداز میں دریافت کیا کہ وہ کون سے تمہارے غلام ہیں جو میرے آقا ہیں۔ بزرگ نے جواب دیا غصہ اور شہوت۔ حضرت لقمان علیہ السلام حقیقت میں آقا تھے لیکن انہوں نے بظاہر غلامی اختیارکر رکھی تھی۔ جب حضرت لقمان علیہ السلام کے آقا ان کی اصلیت پا لی تب وہ ان کا غلام بن گیا اور ان کا جھوٹا کھانے میں راحت محسوس کرتا تھا۔
ایک مرتبہ کہیں سے خربوزے تحفے کے طور پر آئے۔ آقا نے لقمان علیہ السلام کو بلوایا اور اپنے ہاتھ سے خربوزے کاٹ کر انہیں کھلاتا رہا۔ وہ رغبت سے کھا رہے تھے اور آقا خربوزے کاٹ کر انہیں پیش کر رہا تھا۔ اس طرح حضرت لقمان علیہ السلام خربوزوں کی سترہ قاشیں نوش فرما گئے اور ایک قاش باقی بچ گئی ۔ وہ قاش آقا نے بذات خود کھا لی، لیکن اس کے منہ میں کڑاوہٹ کھل گئی اور اس کڑاوہٹ نے اسے بے چین کر دیا۔ جب کڑاوہٹ زائل ہوئی تب اس نے حضرت لقمان علیہ السلام سے کہا کہ آپ نے کڑوے خربوزے بڑی رغبت کے ساتھ کھا لئے۔ ان کے کھانے سے انکار کیوں نہ کردیا۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا کہ انکار کرتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی۔ تمہارے ہاتھ سے میں لذیذ کھانا کھاتا رہا ہوں اور اگر کڑوے خربوزوں پر احتجاج کرتا تب یہ بات میرے لئے باعث شرم تھی۔ تمہارے ہاتھوں کی محبت کی چاشنی خربوزوں کی کڑاوہٹ پر غالب تھی۔ محبت کڑوی چیزوں میں بھی مٹھاس بھر دیتی ہے۔ کانٹوں کو پھول بنا دیتی ہے۔ آگ کو گلزار بنا دیتی ہے۔