کرکٹ از دی بیسٹ

7  جولائی  2016

تحریر:جاوید چوہدری‎ہم ایوبیہ سے نتھیا گلی جا رہے تھے‘ انگریز نے قیام پاکستان سے قبل ایوبیہ اور نتھیا گلی کے درمیان پانی کی ایک لمبی پائپ لائین بچھائی تھی‘ اس پائپ لائین پر بعد ازاں چار کلومیٹر لمبا ایک ٹریک بن گیا‘ یہ ٹریک دنیا کے چند خوبصورت ترین ٹریکس میں شمار ہوتا ہے‘ یہ گھنے جنگل کے درمیان چار فٹ چوڑا راستہ ہے اور جب آپ اس راستے پر چلتے ہیں تو آپ قدرت کی صناعی اور خوبصورتی پر حیران رہ جاتے ہیں۔

میں اور میرا استاد اس راستے پر چل رہے تھے‘ یہ جون کا مہینہ تھا لیکن وہاں خنکی تھی‘ میں نے چلتے چلتے استاد سے پوچھا ’’ استاد جی زندگی گزارنے کا سب سے بہتر فارمولہ کیا ہے؟‘‘ میرے استاد مسکرائے اور چھوٹے چھوٹے قدم لیتے ہوئے بولے ’’ کھیل‘‘۔ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ کیا مطلب ؟‘‘ میرے استاد نے فرمایا ’’ دنیا کے تمام کھیل زندگی گزارنے کی تکنیکس ہیں‘ دنیا کے ہر کھیل میں ایک وزڈم اور زندگی گزارنے کا ایک سلیقہ پوشیدہ ہے اور اگر ہم اس سلیقے اور وزڈم کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم کامیاب ہو جاتے ہیں‘‘ میں نے استاد سے وضاحت کی درخواست کی‘ وہ بولے ’’ مثلاً تم کشتی رانی کو لے لو‘ ایک وسیع سمندر یا ایک شوریدہ دریا میں ایک چھوٹی سے کشتی ہوتی ہے اور کشتی چلانے والے کے ہاتھ میں صرف دو چپو‘ انسان نے اپنے دو بازوئوں کی مدد سے اس کشتی کو شوریدہ سر دریا اور وسیع سمندر سے نکال کر منزل تک پہنچانا ہوتا ہے‘ یہ کھیل کیا ہے اور اس کھیل میں کیا وزڈم چھپی ہے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ استاد صاحب بولے ’’ ہمارے گرد ترغیبات کا سمندر پھیلا ہے ‘ ہم اپنی ذات کی ایک چھوٹی سی کشتی پر سوار ہیں اور ہمارے پاس وسائل کے صرف دو چپو ہیں اور ہم نے ان چپوئوں کے ذریعے ترغیبات کے سمندر کو چیر کر کنارے تک پہنچنا ہے‘

مجھے بات سمجھ نہ آئی‘ استاد نے میری کشمکش بھانپ لی‘ وہ بولے ’’ ہم لوگ جب گھر سے نکلتے ہیں توہمارے راستے میں بے شمار بینک آتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں ان بینکوں میں اربوں روپے پڑے ہیں‘ ہمارے اردگرد کروڑوں روپے کی گاڑیاں بھی پھرتی ہیں‘ ہمارے راستے میں اربوں روپے کی عمارتیں اور گھر بھی آتے ہیں اور ہمارے سامنے بے شمار لوگ بریف کیسوں میں لاکھوں کروڑوں روپے بھر کر پھرتے رہتے ہیں‘

یہ ساری چیزیں ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہیں‘ یہ ہمیں برائی اور جرم کی ترغیب دیتی ہیں لیکن ہم ان ترغبیات کو جھٹکتے ہوئے اپنی سائیکل پر اپنے دو مرلے کے گھر میںچلے جاتے ہیں‘ یہ ہے کشتی رانی کے کھیل کی وزڈم‘ یہ وزڈم تمہیں بتاتی ہے زندگی میں جب بھی تمہیں ترغیبات اپنی طرف متوجہ کریں تو تم فوراً کشتی رانی کے کھیل کو ذہن میں لائو اور جان لو تم ترغیبات کے کھارے سمندر میں سفر کر رہے ہو‘

تمہارے اردگرد ہر طرف پانی ہے لیکن تم یہ پانی پی نہیں سکتے اور تمہاری فلاح اسی میں ہے تم کسی نہ کسی طرح چپو چلاتے رہو‘ تم اپنی ننھی سی کشتی کو کنارے تک لے جائو اور اگر تم نے ایسا کرلیا تو تم بچ جائو گے ورنہ تم ترغیبات کے سمندر میں ڈوب جائو گے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔وہ ذرا دیر رک کر بولے ’’ تم فٹ بال اور ہاکی کے کھیل کو لو‘ اس کھیل میں کھلاڑی گیند یا بال کو مخالف گول تک پہنچانا چاہتا ہے‘

یہ بنیادی طور پر چیلنج کا کھیل ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر شخص کو چیلنج کی ایک گیند یا فٹ بال دے رکھی ہے اور ہم پوری زندگی اس گیند کومخالف گول میں پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کھیل میں صرف وہ کھلاڑی کامیاب ہوتا ہے جو پوری ٹیم کے ساتھ آگے بڑھتا ہے‘ یہ کھیل ہمیں سبق دیتے ہیں جب تک ہم پوری ٹیم کا حصہ نہیں بنتے یا ٹیم کو اپنا حصہ نہیں بناتے اس وقت تک ہم چیلنج پر پورے نہیں اتر سکتے

چنانچہ تمہیں جب بھی زندگی میں کوئی چیلنج یا ٹاسک ملے توتم فوراً فٹ بال یا ہاکی کو ذہن میں لائو‘ ٹیم بنائو اور پوری ٹیم کو ساتھ لے کر چلو‘ تم کامیاب ہو جائو گے‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ تم کبڈی کے کھیل کو دیکھو‘ اس کھیل کی بنیاد جسمانی طاقت اور توانائی ہے اور یہ کھیل بتاتا ہے جب تک ہم جسمانی لحاظ سے مضبوط اور توانا نہیں ہوتے ہم اس وقت تک مخالفتوں‘ مسائل اور پریشانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے

چنانچہ جب بھی زندگی میں تمہیں کسی مخالفت یا پریشانی کا سامنا ہو تو ذہن میں فوراً کبڈی کا کھیل لائو اور اپنی جسمانی طاقت میں اضافہ کرلو‘‘ وہ رکے اور چند لمحے کے توقف کے بعد بولے ’’ اسی طرح رگبی ’’ ہولڈ‘‘ کرنے کا کھیل ہے‘ زندگی میں اگر تمہیں ایک بار چانس مل جائے تو تم اس کے بعد کبھی اس چانس کو ہاتھ سے نہ نکلنے دو‘ اسے ہولڈ کرو خواہ اس کھیل کے تمام کھلاڑی تمہارا گھیرائو کیوں نہ کرلیں‘

وہ تمہارے اوپر ہی کیوں نہ گر جائیں‘‘وہ رکے‘ انہوں نے لمبی سانس بھری اور دوبارہ بولے ’’ اسی طرح لُڈو قسمت کا کھیل ہے اور اس کھیل میں صرف وہ کامیاب ہوتا ہے جو ہمت نہیں ہارتا‘ جو کھیلتا رہتا ہے‘ سانپ اور سیڑھی کا کھیل زندگی کے نامعلوم خطرات کو ظاہر کرتا ہے‘ ہم زندگی کی سیڑھی پر اوپر کی طرف بڑھتے رہتے ہیں‘پھر اچانک کسی طرف سے کوئی ان دیکھا سانپ آتا ہے‘ وہ ہمیں ڈستا ہے

اور ہم نیچے پہلی سیڑھی پر آ گرتے ہیں‘ یہ کھیل ہمیں ہمت کا درس دیتا ہے چنانچہ جب بھی ناکامی کا اچانک سامنا کرنا پڑے تو اس کھیل کو دماغ میں لے آئو اور یہ سوچ لو اگر میں نے ہمت ہار دی تو میرا کھیل ختم ہو جائے گا اور سائیکل ریس ……‘‘ استاد صاحب سائیکل ریس کی طرف بڑھے لیکن میں نے ان کو ٹوک دیا۔استاد صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھا‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب میں جانتا ہوں دنیا کے ہر کھیل میں زندگی کیلئے کوئی نہ کوئی سبق چھپا ہے

اور جو شخص ان کھیلوں کی سپرٹ کو زندگی میں شامل کر لیتا ہے اس کی زندگی زیادہ خوبصورت اور دلچسپ ہو جاتی ہے لیکن جناب میرا سوال یہ ہے ان میں سب سے اچھا کھیل کون سا ہے ‘ وہ کون سا کھیل ہے جسے اگر ہم اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم زیادہ بہتر اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں ‘‘ استاد جی نے قہقہہ لگایا اور رک گئے‘ ہم دونوں بینچ پر بیٹھ گئے‘ ہمارے سامنے ایک اونچی‘ سبز چٹان تھی‘

چٹان پر ہریالی ہی ہریالی اور سبزہ ہی سبزہ تھا جبکہ ہمارے پیچھے مہیب گہرائیوں میں چیڑ کا طویل جنگل آباد تھا‘ جنگل سے جھینگروں کی آوازیں آ رہی تھیں‘ استاد جی نے گھٹنے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر بولے ’’ کرکٹ‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’ اور کرکٹ میں بھی بیٹسمین شپ‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’ کرکٹ کی کریز ہمیں یہ سبق دیتی ہے دنیا میں صرف وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو زیادہ دیر تک کریز پر ڈٹا رہتا ہے‘

تم ایک لمحے کیلئے بلے بازوں کو ذہن میں لائو اور سوچو جب ایک بلے باز وکٹ پر کھڑا ہوتا ہے‘ تو اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج کیا ہوتا ہے‘ اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج سامنے سے آنے والی بالز کو روکنا ہوتا ہے‘ اگر وہ بالز کو روکتا رہے تو پھر اسے ایسی بالز بھی مل جاتی ہیں جن پر وہ چھکے اور چوکے مار سکتا ہے لیکن اگر وہ کریز سے آئوٹ ہو جائے تو کامیابی کا چانس ختم ہو جاتا ہے چنانچہ اچھا بیٹسمین وہ نہیں ہوتا

جو زیادہ چوکے اور زیادہ چھکے مارتا ہے بلکہ اچھا بلے باز وہ ہوتا ہے جو زیادہ دیر تک وکٹ پر قائم رہتا ہے اور تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے سکور میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور جو میچ کے آخر تک کھیلتا ہے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ استاد جی بولے ’’ تم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو زندگی کو بلے باز کی طرح دیکھو‘ وکٹ پر پہنچو‘ کھڑے ہو جائو اور اپنی طرف آنے والی گیندوں کو روکتے رہو‘ تمہاری صرف ایک کوشش ہونی چاہیے

تمہاری طرف بڑھنے والی کوئی گیند وکٹ تک نہ پہنچ پائے‘ اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تویاد رکھو زندگی تمہیں بے شمار ایسی ’’ لوز بالز‘‘ دے گی جن پر تم بڑی آسانی سے چوکے اور چھکے مار سکو گے‘ تم مین آف دی میچ بن سکو گے لیکن اگر تم کریز پر کھڑے ہوتے ہی چوکے اور چھکے مارنے کے خبط میں مبتلا ہوگئے‘ اگر تم وکٹ پر پہنچ کر جذباتی ہوگئے یا تم نے اپنی کامیابیوں کی رفتار کنٹرول نہ کی تو یاد رکھو تم چند چھکے مار کر آئوٹ ہو جائو گے

اور تمہاری جگہ کوئی دوسرا کھلاڑی لے لے گا اور اس کے بعد تم پویلین میں بیٹھ کر تالیاں بجانے اور آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے‘‘ وہ رکے ‘ انہوں نے ٹھنڈا سانس لیا‘ کھڑے ہوئے اور بولے ’’ چلو اب ہم واک کا کھیل کھیلتے ہیں‘ واک ہمیں بتاتی ہے انسان کو اپنے وقت کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ہم اپنے فالتو وقت کو بھی مثبت اور تعمیری شکل دے سکتے ہیں لیکن‘‘ وہ رکے ‘ انہوں نے لمبا سانس بھرا اور بولے’’لیکن کرکٹ از دی بیسٹ‘‘

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…