جمعرات‬‮ ، 06 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

بہترمستقبل کی تلاش نے 8پاکستانیوں کو موت کی گہری کھائی میں دھکیل دیا‎

datetime 30  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانیوں میں سے آٹھ کی وطن واپسی بند تابوتوں میں ہوئی ہے۔
یہ آٹھوں افراد تارکینِ وطن کی اس کشتی کے سوار تھے جو لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے 26 اگست کو سمندر میں ڈوب گئی تھی۔
اس حادثے میں سو سے زیادہ غیر ملکیوں کے علاوہ ان آٹھ افراد سمیت 20 پاکستانی بھی ہلاک ہوئے تھے۔حادثے میں ہلاک ہونے والے پانچ پاکستانیوں کو تو اٹلی میں ہی دفنا دیا گیا جبکہ جھنگ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد کی لاشیں بدھ کو لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچیں جنھیں قانونی کارروائی کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔اس موقع پر ہوائی اڈے پر موجود کمشنر برائے سمندر پار پاکستانی افضال بھٹی کا کہنا تھا ’جو لوگ بھی انسانی سمگلنگ میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘ہلاک ہونے والے محمد نواز کے بھائی بشارت اللہ نے بتایا کہ ان کےخاندان کے بیشتر لوگ مفلس اور غریب ہیں اور جب ان کے علاقے میں انسانی سمگلنگ کا کاروبار کرنے والے کارکن نے انھیں بیرون ملک نوکری کے سنہرے خواب دکھائے تو گھر والوں نے محمد نواز کو بیرونِ ملک بھیجنے پر اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر ڈالی۔
بشارت اللہ نے کہا ’ہم نے ان لوگوں کو پانچ لاکھ روپے دیے تھے ہمارے بھائی کو کشتی پر بھیجنے کے لیے، لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا اس کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا۔ یہ لوگ غریبوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، دکھاتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے۔‘
اقوامِ متحدہ کی گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے اور یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ جانے والے پاکستانیوں کی شرح میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ صرف ان لوگوں کی تعداد ہے جو پکڑے جانے کے بعد ڈی پورٹ کیے گئے ہیں۔ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کا کہناہے کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کے معاملات بڑھنے کی وجہ یہاں سے نقل مکانی کرنے کی وجوہات بننے والے عناصر میں اضافہ ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس ( انسانی سمگلنگ) کی روک تھام کے لیے وہ جدید مشینری بھی نہیں ہے جو یورپی ممالک میں پائی جاتی ہے۔‘ تحقیقات کے مطابق سب سے زیادہ خطرناک انسانی سمگلنگ رنگ مرکزی پنجاب میں کام کر رہے ہیں جو لوگوں سے لاکھوں روپے کے عوض انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح خطرناک راستوں سے کوئٹہ، پھر ایران کے تفتان بارڈر اور وہاں سے ماکو کے پہاڑوں سے ترکی پہنچاتے ہیں۔یہ سفر پیدل ، کشتیوں میں اور کبھی تو سامان لے جانے والے کنٹینرز میں کیا جاتا ہے۔ راستہ اتنا دشوار ہے کہ اکثر لوگ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی مارے جاتے ہیں یا پھر سرحد پرگرفتار ہو جاتے ہیں۔لیکن ان مشکلات کے بارے میں ان غریبوں کو کچھ نہیں بتایا جاتا جو ملک میں بڑھتی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے نکلنے کے لیے جان اور مال دونوں داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



آئوٹ آف سلیبس


لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…