اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

!دیوار ’’برلن‘‘ سے دیوار’’ برہمن‘‘ تک

datetime 16  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دنیا میں دو دیواریں بہت مشہور ہیں‘ ایک دیوار چین اور دوسری دیوار برلن ۔دیوار چین حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے قریباً دو سو سال پہلے چین کے بادشاہ شی ہیوانگ ٹی نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی ‘ یہ دیوار چین کی شمالی سرحد پر بنائی گئی۔ اس دیوار کی ابتدا چین اور منچوکو کی سرحد سے کی گئی۔ چین کے دشمن اس زمانے میں ہن اور تاتار تھے جو وسط ایشیا میں کافی طاقتور سمجھے جاتے تھے۔ یہ دیوار خلیج لیاؤتنگ سے منگولیا اور تبت کے سرحدی علاقے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی لمبائی قریباً پندرہ سو میل ہے اور یہ بیس سے لے کر تیس فٹ تک اونچی ہے۔ چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور اوپر سے بارہ فٹ کے قریب ہے۔ ہر دو سو گز کے فاصلے پر پہرے داروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔

berlin-wall
دیوار برلن بھی خاصی شہرت کی حامل ہے۔یہ جرمنی کی ایک رکاوٹی دیوار تھی جو عوامی جمہوریہ جرمنی (مشرقی جرمنی) نے مغربی برلن کے گرد تعمیر کی تھی تاکہ اسے مشرقی جرمنی بشمول مشرقی برلن سے جدا کیا جا سکے۔ یہ مشرقی و مغربی جرمنی کے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی تھی۔ یہ دیوار مغربی یورپ اور مشرقی اتحاد کے درمیان ’’آہنی پردہ‘‘ کی علامت بھی تھی۔دیوار کی تعمیر سے قبل 35 لاکھ مشرقی جرمن باشندے مشرقی اتحادکی ہجرت پر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار کی۔1961ء سے 1989ء تک اپنے وجود کے دوران دیوار نے اس طرح کی ہجرتوں کو روکے رکھا اور چار صدیوں سے زائد عرصے تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا کیے رکھا۔ دیوار کو عبور کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کئی رکاوٹیں لگائی گئیں جس کے نتیجے میں دیوار عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 5 ہزار افراد میں سے 98 سے 200 تک اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔مشرقی اتحاد میں انقلابی لہر کے دوران چند ہفتوں کی بدامنی کے بعد مشرقی جرمنی کی حکومت نے 9 نومبر 1989ء کو اعلان کیا کہ مشرقی جرمنی کے تمام شہری مغربی جرمنی اور مغربی برلن جا سکتے ہیں‘

مزید پڑھئے:جنرل راحیل شریف نے اہم اعلان کردیا

اس اعلان کے ساتھ ہی مشرقی جرمنی کے باشندوں کی بڑی تعداد دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی جا پہنچی جہاں مغربی جرمنی کے باشندوں نے ان کا بھرپور خیرمقدم کیا۔ اگلے چند ہفتوں میں پرجوش عوام نے دیوار پر دھاوا بول دیا اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ ڈالا بعد ازاں صنعتی آلات کے ذریعے دیوار کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔دیوار برلن کے خاتمے نے جرمن اتحاد کی راہ ہموار کی جو بالآخر 3 اکتوبر 1990ء کو باضابطہ طور پر مکمل ہوا۔ دیوار برلن کو گرے 24 سال ہو چکے ‘ اس دیوار نے 28 سال تک ایک طرح سے پہلی اور دوسری دنیا کے درمیان بارڈر کا کرداربھی ادا کیاتھا۔دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کو شکست ہو گئی تو فاتح قوموں نے اس ملک پر کنٹرول قائم رکھنے کی خاطر اس کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شمالی علاقہ میں برطانیہ‘ وسطی علاقہ میں امریکا‘ جنوبی علاقہ میں فرانس اور مشرقی علاقہ میں روس نے قبضہ جما لیا ۔ برلن شہر کی اہمیت کے پیش نظر اس کو کسی علاقہ میں شامل نہ کیا گیا بلکہ اسکو بھی چار’’ سیکٹروں‘‘ میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر سیکٹر کی حدود مقرر کی گئیں ۔ ہر سیکٹر کے ختم اور شروع ہونے پر اہم سڑکوں پر بورڈ نصب ہوتے تھے جن پر چار زبانوں میں لکھا ہوا ہوتا تھا ۔1948ء میں تینوں مغربی طاقتوں اور روس کے درمیان اختلافات کا آغاز ہو گیا اور 1949 میں تینوں مغربی حصوں پر ملک مغربی جرمنی اور روسی حصہ پر مشتمل مشرقی جرمنی وجود میں آگئے اور اسی طرح برلن شہر کے تینوں مغربی حصے مغربی برلن اور روسی سیکٹر مشرقی برلن کہلانے لگا۔ابتدا میں تو برلن کے دونوں حصوں میں کوئی دیوار نہ تھی اور لوگ آزادی سے آ جا سکتے تھے مگر جب مشرقی جرمنی کے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر جانے لگے تو آہستہ آہستہ سختی شروع ہو گئی چنانچہ جب 35 لاکھ لوگ مشرق سے مغرب میں منتقل ہو چکے تو بارڈر بند کر دئیے گئے اور 13 اگست 1961ء کو مغربی برلن کے چاروں طرف مشرقی جرمنی کے علاقے میں 168 کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر شروع ہو گئی اور اس طرح ایک بھرے ہوئے شہر کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے اور بہت سے خاندانوں کے بھی۔

hgj
1989 میں گورباچوف کے زمانے میں جب کمیونسٹ بلاک میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں تو مشرقی جرمنی نے بہت زیادہ مدافعت کا مظاہرہ کیا مگر حالات کنٹرول سے باہر ہو چکے تھے اور مشرقی جرمنی کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور روس نے بھی ان کی حکومت سے تبدیلیوں کا مطالبہ کر دیا تھا‘ سارا ملک Gorbi Gorbi ..کے نعروں سے گونج رہا تھا چنانچہ 9 نومبر 1989 ء کو حکومت کے ترجمان نے مشرقی جرمنی کے عوام کے لیے ملک سے باہر جانے کی فوری سہولتوں کا ایک غلط فہمی کے نتیجہ میں اعلان کر دیا اور اسی رات کو تمام قوم اٹھ کر بارڈرز کی طرف چل پڑی ‘ ہجوم کے ہجوم دیوار پر چڑھ گئے اور اس طرح عملاً دیوار گر گئی۔

sdfsd
دیوار برلن تو گر گئی ‘ جرمن قوم اتحاد کی صورت ایک بڑی قوم کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے لیکن جنوبی ایشیا میں اسی طرح کی ایک دیوار کی تعمیر کی شروعات اس خطے کو دو علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں میں منقسم کر دے گی‘ ذہنوں پر چھائے نفرت کے سائے‘ دماغ میں پلتی حقارت یوار برہمن کی صورت ایک اور خلیج حائل کرنے کیلئے کام شروع ہو چکا‘ بھارت نے اپنے مغربی بارڈر اور پاکستان کے مشرقی بارڈر پر دیوار قائم کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ جموں کو پاکستان سے الگ کرنے والی دیوار برہمن فلسطین کے علاقے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار سے زیادہ بلند ہوگی اور اس کی اونچائی دس میٹر ہو گی ۔بھارت پاکستان سے ملنے والی جموں کی 198 کلومیٹر طویل سرحد پر ایک دیوار تعمیر کر رہا ہے ‘ بھارتی حکام جواز پیش کر رہے ہیں یہ دیوار مبینہ طور پر در اندازوں کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔یہ دیوار 198 کلومیٹر لمبی ہوگی اور یہ ضلع جموں‘ کاٹھوا و رسامبا کے 118 دیہاتوں سے گزرے گی‘ دیوارکی تعمیر پر آنے والے اخراجات کے بارے میں سرکاری طور پر اعداد و شمار تو جاری نہیں کئے گئے تاہم دیوار کے لئے فنڈز وزارت داخلہ فراہم کرے گی اور تعمیراتی کام کی نگرانی بارڈر سیکورٹی فورس کرے گی۔دیوار کی تعمیر کے لئے ابتدائی کام شروع کردیا گیا ہے ۔86 دیہاتوں کے لئے جن کی زمین دیوار کی تعمیر میں کام آئے گی ’’نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘‘ حاصل کر لیا گیا ہے بارڈرسکیورٹی فورس زمین کے مالکان کو ہرجانہ ادا کررہی ہے اور جلد تعمیراتی کام کا آغاز ہونے والا ہے۔

DA

اس دیوار کا پہلے 45فٹ چوڑائی کا منصوبہ تھا جسے بعد ازاں تبدیل کر کے135فٹ کردیا گیا۔جس کی وجہ سے کچھ کسان 135فٹ چوڑی زمین بارڈر سیکورٹی فورس کو دینے کو تیار نہیں۔ یہ بھی یاد رہے پاکستان سے ملنے والی جموں و کشمیرکی سرحد پر پہلے ہی بارہ فٹ کی دہری متوازی خار دار تاروں سے بنی ’’دیوار‘‘ موجود ہے اور اس پر فلڈ لائٹس بھی نصب ہیں لیکن ہندوبنیا کی ذہنیت اس خطے میں مزید نفرت کی فصیل کھڑی کرنا چاہتی ہے۔ ہو نہ ہو لیکن اس دیوار کی تعمیر سے پاکستان اور بھارت جو پہلے ہی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں ان کے تعلقات مزید خراب ہونے کے امکانات ہیں اور سرکاری طور پر کی جانے والی ان تمام کوششوں کا مینار بھی مسمار ہو جائے جن کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ بات قطعی نہیں کہ دیوار’’ برہمن‘‘ کی تعمیر سے اسمگلنگ اور دراندازی پر سو فیصد قابو پایا جا سکے گا یا نہیں لیکن یہ طے ہے یہ دیوار دونوں ممالک کے درمیان ایک نئی خلیج ضرور ثابت ہو گی۔

FGDF
دیواربرہمن کی تعمیرکا ہندوستانی منصوبہ امن کی ان تمام کوششوں پرزناٹے دار طمانچہ ہے‘ یہ پاکستانی حکومت کی بھارت سے تعلقات معمول پر لانے‘ بھارت کو موسٹ فیورٹ کنٹری قرار دینے اور تجارت کو بڑھانے کے خوابوں پر بھی زوردار تھپڑ ہے۔ یہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ہندوستانی مظالم اور کشمیری عوام کی تحریک آزادی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ وہ کشمیری جو پہلے ہی لائن آف کنٹرول کو نہیں مانتے سوال یہ ہے پھر دیوار ’’برہمن‘‘ کی تعمیر کیونکر قبول ہو گی۔ ہندوستان دیوار’’ برہمن‘‘ کی تعمیر سے کشمیریوں کو بھی تقسیم کرنا چاہتا ہے تا کہ متحد کشمیریوں کو منقسم کر کے تحریک آزادی کو کچلا جا سکے ۔ مگر اس سب کے باوجود پاکستان سرکار خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے ۔ حیرت ہے بھارت ہمارا پانی روک لے‘ ہمارے دریاؤں پر وولربیراج طرز کے سینکڑوں ڈیم تعمیر کر دے ‘ ہمارے دریاؤں کو خشک اور ہماری کھیتیوں کو بنجر کر دے لیکن اس کے باوجود پاکستانی حکومت کے لب تک نہیں کھلتے اور اب بھارت دیوار ’’برہمن ‘‘تعمیر کرنے جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم خاموش ہیں۔ جرمنی جیسی قومیں دیواروں کو گرا کر معیشت کی بہتر ی اور امن و امان کا گُر پا چکیں ‘اور ہندوبنیا دیوار ’’برہمن ‘‘تعمیر کر کے نفرت کی دیواریں مزید بڑھانا چاہتا ہے۔ !



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…