اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

مریم انگلستان کی سرزمین پر پہنچنے والی پہلی ہندوستانی خاتون‎

datetime 2  اپریل‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہندوستان میں ان دنوں مغل بادشاہ نورالدین محمد سلیم المعروف جہانگیر کی حکومت تھی‘ مغل اعظم جلال الدین اکبرکے ساتھ ساتھ اس کا معاشرتی انقلاب اپنے اختتام کو پہنچ چکاتھا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد سفارتی محاذپر رابطے بڑھ رہے تھے‘ کمپنی کا پہلا سفارتی قافلہ شاہ انگلستان جیمز اول کاخط لے کر1609میں ہندوستان پہنچا ‘ اس قافلے کی قیادت ایک نوجوان کپتان ولیم ہاکنزکے ہاتھ تھی۔جیمز اول نے اپنے خط میں جہانگیر کے نام دوستی اور محبت کا پیغام بھیجا اور ساحلی علاقوں میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت طلب کی ۔

PORTUGUESE_4_56604-LG

جہانگیر نے اپنے شاہانہ انداز میں نا صرف یہ اجازت دی بلکہ ولیم ہاکنز کوانعام و اکرام اور دربار میں منصب بھی عطا کر دیا۔ جہانگیز کی خواہش تھی ہاکنز مصاحب کی حیثیت سے اس کے دربار میں رہنے پر آمادہ ہو جائے‘ اس کیلئے آگرہ میں رہائش گاہ بنائی گئی اور ساتھ ہی ایک حسین لڑکی سے شادی کی پیشکش بھی کردی۔ ہاکنز نے سفارتی گر استعمال کیا اور عذر پیش کیا کہ وہ کسی غیر مذہب لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔جہانگیر معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا اوراس کے بعد اس کا حل تلاش لیا۔بادشاہ کے محل میں ایک خوبرو نصرانی حسینہ موجود تھی‘ اس کا نام مریم تھا اور یہ دربار میں اعلیٰ منصب پر فائز ایک درباری مبارک شاہ کی بیٹی تھی۔ مریم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور مریم کے پاس سوائے چند قیمتی جواہرات کے کچھ بھی نہیں تھا۔ بادشاہ نے ہاکنز کواس لڑکی کی پیشکش کر دی‘ ہاکنز کے پاس انکار کا جواز نہیں تھا چنانچہ دونوں کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد میاں بیوی خوشگوار زندگی گزارنے لگے۔ یوں ولیم ہاکنز آہستہ آہستہ مغل دربار میں اپنی عزت و مقام پانے لگا‘ اسے ترکی زبان بھی ازبر تھی اور وہ مغل دربار کے ادب آداب سے بھی شناسا تھا ۔

مزیدپڑھیئے:ن لیگ دوحصوں میں تقسیم

ہاکنز کی بادشاہ سے بڑھتی قربت برطانیہ کے حریف پرتگالی تاجروں کو ذرا پسند نہ آئی‘ انہوں نے ہاکنز کو بادشاہ کی نظروں سے گرانے کا فیصلہ کر لیا‘ پرتگالی تاجروں نے اس کیلئے ہر حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ اسے زہر دے کر جان سے مارنے کی کوشش بھی کی۔ حالات کی بدلتی رتوں میں حاسد اس حد تک کامیاب ہو گئے کہ انہوں نے ولیم ہاکنز کو تنگ کر کے برطانیہ جانے پر مجبور کر دیا لیکن مریم کی والدہ اور دیگر خاند رضامند نہ ہوئے لیکن مریم ایک مشرقی بیوی کی طرح شوہر کے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئی اوردونوں نے خاندان سے چوری چھپے برطانیہ کا سفر شروع کر دیا‘پرتگالی جو پہلے ہی ہاکنز سے جان چھڑانا چاہتے تھے انہوں نے اس کی مدد کی۔یہ 1611ء میں سورت کی بندرگاہ سے برطانوی جہاز پر سوار ہوئے ‘ جہاز روانہ ہوا تو چند سو میل سفر کے بعد طوفان نے جہاز کو گھیر لیا‘ سینکڑوں مسافر موت کا شکار ہوگئے اور ان میں ولیم ہاکنز بھی شامل تھا۔ جہاز ہچکولے کھاتا‘ طوفان تھپیڑوں کو سہتے سہتے ہفتوں بعد ساحل پر جا لگا‘ طوفانی ہواؤں نے جہاز کو دھکیل کر آئر لینڈ کے ساحل سے جا لگایا مگر اس دوران جب ولیم ہاکنز مر چکا تھا‘ مریم کیلئے اکیلے سفر کرنا مشکل تھا‘ جہاز پر ہی ہاکنز کی موت کے کچھ دنوں بعد اس نے ایک برطانوی تاجر گبریل ٹوورسن سے شادی کر لی‘

بادشاہ کے محل میں ایک خوبرو نصرانی حسینہ موجود تھی‘ اس کا نام مریم تھا اور یہ دربار میں اعلیٰ منصب پر فائز ایک درباری مبارک شاہ کی بیٹی تھی‘ مریم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور مریم کے پاس سوائے چند قیمتی جواہرات کے کچھ بھی نہیں تھا‘بادشاہ نے ہاکنز کواس لڑکی کی پیشکش کر دی‘ ہاکنز کے پاس انکار کا جواز نہیں تھا چنانچہ دونوں کی شادی کر دی گئی

1

جب جہاز لنگرانداز ہوا تو مریم اور گبریل ٹوورسن نے ہاکنز کی لاش اٹھائی اور آئرلینڈ کے ساحل پر دفن کر دی۔ یہ دونوں ایک عرصہ آئرلینڈ میں رہے اور پھرمریم گبریل کے ساتھ لندن پہنچ گئی۔ ٹوورسن ولیم ہاکنز کی طرح ہندوستان سے رواداری برتنے کا قائل نہیں تھا حتیٰ کہ اس کااپنی بیوی سے بھی رویہ مخلصانہ نہیں تھا۔ اس نے مریم سے شادی اس کی خاندانی حیثیت سے فائدہ اٹھانے اور ہاکنز کے ترکے پر قبضہ جمانے کے لئے کی تھی تاہم دونوں کی شادی کودواڑھائی سال گزرے تو1616میں ٹوورسن کو کمپنی کی طرف سے جہاز لے کر ہندوستان جانے کا حکم ملا چنانچہ اس نے مریم کو بھی اپنے ساتھ ہندوستان لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ مریم بڑے ٹھاٹ سے 1617 میں ہندوستان پہنچی لیکن ٹوورسن کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ مریم میں اسے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی اوردونوں کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے یہاں تک کہ ٹوورسن نے کہیں اور قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا اور مریم کے لئے صرف200 روپے چھوڑ کر چلتا بنا۔ مریم اپنی والدہ اور ایک برطانوی ملازم لڑکے کے ساتھ آگرہ ہی میں رہی اور قرض لے لے کر زندگی گزارنے لگی۔مریم نے باقی ماندہ زندگی کیسے اور کہاں گزاری اس بارے میں کوئی معلومات نہیں لیکن برٹش ریکارڈ میں اس کے برطانوی سفر اور دونوں شوہروں کے بارے میں خاصی تفاصیل موجود ہیں۔جس سے انگلستان میں اس کی زندگی پرروشنی پڑتی ہے۔ لندن میں مریم کی زندگی بظاہر خوشگوار گزری۔ اس کے پاس کئی ملازم تھے اور وہ ہندوستان کے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے کے باعث وہاں عزت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ اگرچہ سترہویں صدی میں اس کے علاوہ بھی کئی ہندوستانی خواتین برطانیہ پہنچیں لیکن صرف مریم کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون تھی جو ایک برطانوی سفیر اور پھر جہاز کے کپتان کی بیوی کی حیثیت سے انگلستان آئی تھی۔



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…