اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ کرنے والے افراد کو تربیت یافتہ دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پچھلے ایک سال سے تربیت دی جا رہی تھی،9 مئی سے 11 مئی تک 3 دن ملک میں فتنہ فساد، سرکاری اور حساس دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے،
شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کیا گیا اور لوگوں کے گھروں پر حملے کیے گئے،یہ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکن نہیں ہیں، یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جس کے اندر نفرت، عناد، گھیراؤ جلاؤ، میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو اور میں ماردوں گا کا کلچر ہے،23کروڑ کے ملک میں صرف 40 سے 45 ہزار لوگ عمران خان کیلئے احتجاج کیلئے باہر آئے،اگر فتنے کو ریلیف نہ ملتا تو یہ بوتل میں بند ہوچکا ہوتا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 9 مئی سے 11 مئی تک 3 دن ملک میں فتنہ فساد، سرکاری اور حساس دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے، شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کیا گیا اور لوگوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔انہوں نے کہاکہ ہم کہتے رہے ہیں یہ شخص سیاسی لیڈر نہیں بلکہ یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا مقصد ملک میں افراتفری، انارکی اور فساد پھیلانا ہے، اسی مقصد کے تحت یہ پوری جدوجہد کر رہا ہے، 2014 سے بالعموم اور پچھلے ایک سال سے بالخصوص اس فتنے نے ایک ایسا کلٹ تیار کیا ہے جس کا اندازہ حالیہ واقعات کی ویڈیوز سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکن نہیں ہیں، یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے، جس کے اندر نفرت، عناد، گھیراؤ جلاؤ، میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو اور میں ماردوں گا کا کلچر ہے، اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ صاف نظر آرہی ہے، شہدا کی یادگاروں کو آگ لگانا کون سی سیاست ہے، دفاعی تنصیبات کے اوپر حملہ کرنا، آگ لگانا، اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا ہمارا سیاسی کلچر نہیں رہا۔انہوں نے کہاکہ ہمارا ہاں سیاست میں کتنی تلخی رہی ہے، کسی زمانے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اختلاف رہا تاہم ہم کبھی ایک دوسرے کے گھروں پر پہنچے مگر تند و تیز سیاسی بیانات دیتے رہے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ کون سا سیاسی کارکن ہو سکتا ہے جو ایمبولینس سے مریضوں کو نکالے اور ایمبولینس کو آگ لگا دے، اسکولوں اور ریڈیو پاکستان کو آگ لگائے۔انہوں نے کہاکہ وہاں ایک مویشی منڈی تھی وہاں پہلے لوٹ مار ہوئی پھر مویشیوں کو آگ لگا دی، جن لوگوں نے یہ حملے کیے ہیں کیا ان کے گھر خلا میں ہیں، ان کے گھر بھی اسی زمین میں ہیں تو پھر اس قوم کو کس طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ احتجاج نہیں بلکہ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا، احتجاج کیا ہوا، دکانوں اور مویشی منڈیوں کو لوٹا گیا۔انہوں نے کہا کہ جانوروں تک کو آگ لگائی گئی، سرکاری املاک کو جلایا گیا،قائد اعظم ہاؤس سے سوئی تک لوٹ لی گئی اور پھر آگ لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات پوری قوم کیلئے پریشانی و دکھ کا باعث ہے کہ ایک آدمی جس نے 60 ارب روپیہ ملک کا لوٹا، اس کا دستاویزی ثبوت ہے اور وہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ میں نے یہ چوری نہیں کی،اس قومی لوٹ پر 7 ارب کی زمین عمران خان نے حاصل کی۔انہوں نے کہاکہ عمران خان نے عوام کے 60 ارب روپے لوٹے۔ شہزاد اکبر دو ارب روپے لے اڑا۔انہوں نے کہاکہ یہ شخص اپنے لوگوں کو کہتا رہا کہ جیسے ہی مجھے گرفتار کیا جائے تو آپ کو اس طرح مظاہرہ کرنا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس شخص کی ایما پر املاک پر حملے ہوئے، حساس املاک پر حملے کیے گئے، بینک لوٹے گئے، قومی املاک کو نذر آتش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام واقعات کا مجرم جب چیف جسٹس کے سامنے آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ”ویلکم“جبکہ اس کے بعد ایسا ریلیف دیا جاتا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی کو نہیں دیا گیا۔رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ جب چیف جسٹس ویلکم کرے اور جاتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کرے تو پھر ہائی کورٹ کے ججز کا کیا اختیار رہ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے 10 سال بالعموم اور گزشتہ ایک سال سے بالخصوص دہشتگرد تیار کیے اور ان سے کہا گیا کہ جب گرفتار ہوں تو اس طرح مظاہرے کرنے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ فتنہ ہے، اس فتنے کی شناخت اور اس کا ادراک ہونا چاہیے اور اسے ووٹ کی طاقت سے مائنس کرنا چاہیے ورنہ یہ ملک کو کسے سانحے سے دوچار کردے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس فتنے کی شناخت ہوگئی ہے، اب اس کا ادراک ہونا چاہیے،حکومت ان دہشتگردوں کا محاسبہ کرے گی اور کسی کے ساتھ نرمی نہیں برتی جائے گی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ان شرپسندوں کے سرغنہ کو اس کا جوابدہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ قوم اس فتنے کی شناخت کرے اور اس کا ادراک بھی کرے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالت نے ان مقدمات میں بھی ضمانت دے دی جو ابھی درج ہی نہیں ہوئے، ان مقدمات میں بھی ضمانت دی گئی جو کسی ادارے کے ذہن میں ہو سکتے ہیں۔
حکومت کی حکمت عملی سے متعلق سوال کے جواب میں رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ ہم نے اس طاقت کا استعمال اس لیے نہیں کیا تاکہ یہ لوگ بے نقاب ہوں،حکومت نے دوسرے اور تیسرے دن اپنی رٹ کو موثر کیا جبکہ اس کے بعد 11 مئی کو پورے ملک میں 12 سے 13 جگہ پر احتجاج ہوا جس میں 4 سے 6 ہزار لوگ شامل تھے۔ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ اگر لاڈلے کو اس دن اتنا بڑا ریلیف نہ ملتا اور اگلے دن اس ریلیف کی پاداش میں اور زیادہ ریلیف نہ ملتا تو شاید ایک دو دنوں میں یہ فتنہ بالکل بوتل میں بند ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس حوالے سے جمہوری جدوجہد جاری رہے گی۔
وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے مصدقہ اعداد وشمار پیش کر رہا ہوں اور کوئی چیلنج کرنا چاہے تو میں اس چیلنج کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔وزیر داخلہ نے کہاکہ 9 مئی کو اسلام آباد میں 12 مقامات پر احتجاج ہوا، جن میں 600 سے 700 تک لوگ شریک ہوئے، پنجاب میں 221 جگہ پر تقریباً 15 ہزار سے 18 ہزار نے احتجاج کیا، خیبرپختونخوا میں 126 مقامات پر احتجاج ہوا جہاں 19 ہزار سے 22 ہزار مظاہرین تھے۔انہوں نے کہا کہ 10 مئی کو اسلام آباد میں 11 مقامات، پنجاب میں 33 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 85 مقامات پر مظاہرے ہوئے، جہاں بالترتیب 1900، 2200 اور 13 ہزار کے درمیان لوگ شریک تھے۔
احتجاج کے اعداد وشمار بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 11 مئی کو اسلام آباد 4 مقامات، پنجاب میں 12 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 39 مقامات پر احتجاج ہوا اور تینوں مقامات میں مجموعی تعداد بالترتیب 515 اسلام آباد، 800 سے ایک ہزار پنجاب اور 5 سے 6 ہزار خیبرپختونخوا میں مظاہرین تھے۔انہوں نے کہاکہ 9 مئی کو پورے پاکستان میں مجموعی طور پر 40 ہزار سے 45 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا، یہ عوامی ردعمل نہیں تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج حوالے سے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تربیت یافتہ دہشت گرد اور فسادی تھے، جن کی تربیت یہ فتنہ پورے ایک سال سے کر رہا تھا، ان کی فہرستیں بن رہی تھی، ان کو تربیت دی جا رہی تھی، ان کو پڑھایا، سمجھایا جا رہا تھا، ان کو پیٹرول بم بنانے کے طریقے سمجھائے جا رہے تھے، جگہ جگہ پر آگ لگائی گئی تھی وہ پیٹرول بم بنانے کے طریقے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کو غلیلیں دی گئی ہیں اور پنجاب، گلگت بلتستان، کراچی، اسلام آباد اور ہر جگہ مخصوص غلیلیں ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ اس جماعت پر پابندی لگانے کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں بنتا،ان کا رویہ یہی رہا تو افسوس سے کہتا ہوں ہمیں مجبور ہونا پڑے گا۔