اسلام آباد (این این آئی)مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما وسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے نوازشریف کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا تھا، خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نے فوجی آمر کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا اور نوازشریف کو پھانسی کے بجائے قید کی سزا سنائی
حالانکہ مشرف نے ایسا قانون بنایا تھا جس میں پھانسی کی سزا دینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ایک انٹرویومیں شاہدخاقان نے کہاکہ نوازشریف کی 1990والی حکومت کے خلاف غلام اسحاق خان سازش نہ کرتے تو پاکستان معاشی طورپر جہاں آج ہے وہاں قطعاً نہ ہوتا 1990میں پاکستان کی معیشت ایشیاء میں ترقی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر تھی، غلام اسحاق خان نے نوازشریف کابینہ کے وزراء سے استعفے لکھوائے، مجھے بھی بلایا کہ استعفے پر سائن کر دیں میں نے انکار کردیا۔انہوں نے کہاکہ رحمت حسین جعفری نے جب کیس کی سماعت جب مکمل کر لی تو میری موجودگی میں نوازشریف کو بلا کر کہا کہ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو ابھی کہہ دیں میں کیس دوبارہ ٹرائل کے لئے واپس بھجوا دوں گا۔رحمت حسین جعفری جیسے جج اور آج کل کے ججزمیں زمین آسمان کا فرق ہے۔میں سعودی عرب میں نوکری کرتا تھا تعلیم میں نے 1982میں مکمل کر لی تھی،دوسری بات یہ ہے کہ ہم سیاسی خاندان نہیں ہیں میرے والدنے نان پارٹی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور تین سال سیاست کی تو اس کے بعد سے حلقے کے عوام کی خواہش تھی کہ آپ الیکشن لڑیں،1988میں ٹکٹ نہیں ملا تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ الیکشن لڑیں تو وہ دن اور آج کا دن، 35سال ہو گئے، وفاداری نہیں بدلی سیاست ہوتی ہی وفاداری سے ہے سیاست مفاد کا نام نہیں ہوتا کہ جہاں فائدہ ملا وہاں نوکری ملے تو چلے گئے،سیاست میں وہی لوگ کچھ کر سکتے ہیں جو جماعت سے وفادار رہیں
اگر جماعت سے اختلاف ہے بے شک چھوڑ دیں لیکن یہ جو مفاد کے لئے چھوڑ جاتے ہیں کہ شام کو جماعت کیساتھ ہوتے ہیں اور صبح نہیں ہوتے یہ معاملہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ شاہد خاقان نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے کام کرے نہ کرے الیکشن آتے ہیں تو ایک نئے رنگ میں مداخلت نظر آتی ہے،1988میں آئی جے آئی بنی کہ بے نظیر بھٹو کو اکثریت نہ مل سکے
بہر حال وہ ان کو اکثریت تو نہ ملی تاہم زیادہ سیٹیں ان کے پاس تھیں پھر بھی کوشش ہوئی کہ وہ وزیراعظم نہ بن سکیں لیکن میرے خیال میں وہ بہتر فیصلہ تھا کہ وہ وزیراعظم بن گئیں،اس کے بعد سے یہ اینٹی پیپلزپارٹی،پرو پیپلزپارٹی بات نہیں تھی دو سوچ تھیں اوراسٹیبلشمنٹ کبھی ایک سوچ سے نالاں ہو جاتی تھی توکبھی دوسری سے نالاں ہو جاتی تھی تو وہ دو ڈھائی سال ایسے ہی چلتا تھا اور میں آج بھی کہتا ہوں کہ
جو میاں نوازشریف صاحب کی 1990کی حکومت تھی اگر وہ پانچ سال پورے کر سکتی تو آج پاکستان مختلف بہت مختلف اور ترقی یافتہ ملک ہوتا تو یہ جو ہم نے خرابیاں پیدا کیں اور وہ خرابی پیدا کی اس وقت کے جو ہمارے ملک کے سب سے یعنی طاقت ور آدمی یا سب سے زیادہ عہدوں پر تجربہ کار آدمی غلام اسحاق خان نے جو صدر تھے اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے جو خرابی پیدا کی وہ آج تک ہم سب بھگت رہے ہیں وہ میں نے خود اس وقت دیکھا کہ کیاکیا تماشے وہاں پر ہوئے کہ رات کے اندھیرے میں ملک کا صدر جو اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ہے اور استعفے اگٹھے کر رہا تھا، ایم این ایز کے استعفے اور وزیروں کے استعفے بلا بلا کر وہ کہتے تھے کہ یہ آپ کا استعفیٰ ہے اس پر دستخط کر دیں۔
اعجاز الحق کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ کابینہ کی اکثریت نے استعفیٰ دے دیا تھا۔اکثریت نے بلکہ میں سمجھوں گا کہ بہت کم کابینہ کے ممبران تھے جنہوں نے نہیں دیا تھاکیونکہ ماحول ہی ایسا پید ا کیا گیا اور مجھ سے غلام اسحاق خان نے وہ لسٹ بھی دکھائی اور کہا کہ آپ کی کیا حیثیت ہے آپ تو کل ممبر بنے ہیں یہ تو سب پرانے سیاستدان ہیں جو کابینہ کے ممبران وہ بھی استعفیٰ دے کر چلے گئے ہیں، انہوں نے کہاکہ یہ کاغذ ہے جی آپ سائن کر دیں میں نے دیکھا تو وہ استعفیٰ تھا تو میں نے کہا کہ میں استعفیٰ نہیں دے سکتا، استعفے ٹائپ کرا کے رکھے ہوئے تھے صرف آپ نے سائن کرنے تھے، وہ بھی رات کے ڈھائی بجے، میں نے کہا مجھے آپ نے ممبر نہیں بنایا ووٹوں سے بنا ہوں تو یہ استعفیٰ پر سائن نہیں کرسکتا وہ غصے میں آگئے ناراض بھی ہوئے۔