اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب، خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے فیصلے پر ماہرین قانون نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوابات سے زیادہ سوالات کھڑے ہوگئے ۔عدالتی فیصلے پر بات کرتے ہوئے قانونی ماہر معیز بیگ نے کہا کہ اس کے 2 پہلو ہیں،
پہلا یہ کہ عدالت عظمیٰ نے قرار دے دیا ہے کہ انتخابات 90 روز کے اندر ہوں گے اور اس آئینی اصول سے انحراف ممکن نہیں اور اگر کسی بھی وجہ سے اس میں تاخیر ہو تو یہ خطرناک مثال ہوگی۔انہوں نے کہاکہ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو اس معاملے کا از خود نوٹس لینا چاہیے تھا بالخصوس اس وقت کہ جب یہی معاملات ہائی کورٹس میں زیر التوا ہوں۔انہوں نے کہاکہ اس کیس میں ایک اور مسئلہ انتہائی اہم ہے جو عدلیہ کی آزادی اور عوام کے عدلیہ پر اعتماد سے متعلق ہے اور وہ بینچ کی تشکیل کا ہے۔معیز بیگ نے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ججز کو ہٹا کر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا اور اس کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر مزید ججز کو نکال کر دوبارہ بینچ تشکیل دینا، اس سے عدالت کی جانبداری کے حوالے سے تحفظات پیدا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد اور عدالت کی غیر جانبداری بھی متاثر ہوتی ہے۔ماہر قانون نے کہا کہ میرے خیال میں چیف جسٹس کی جانب سے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کے باوجود یہ کیس اور اس میں جاری کردہ فیصلے نے جوابات دینے سے زیادہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ ابھی تک سامنے آنے والی تفصیلات کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ یہ ایک مثبت اور تعمیری فیصلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آئینی بحران میں پھنس چکے تھے جس میں سے عدالت عظمیٰ نے ایک راستہ نکالا ہے
اور یہ تفریق بھی درست کی ہے کیوں کہ گورنر پنجاب ایک تکنیکی چیز کا سہارا لے رہے تھے کہ چونکہ میں نے اسمبلی توڑنے کی منظوری نہیں دی اس لیے انتخابات کے معاملے میں میں پہل نہیں کرسکتا۔ان کے مطابق اس وقت لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن گورنر پنجاب کے ساتھ مشاورت کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے،
اب عدالت عظمیٰ نے الجھن دور کردی اور صوبہ پنجاب کی حد تک خلا کو پر کردیا گیا ہے اور گورنر کے انکار کے تناظر میں کہہ دیا کہ اس صورتحال میں صدر پاکستان اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ آئینی لحاظ سے صورتحال ایسی بن جائے کہ متعلقہ ادارے یا افراد خاموش رہیں تو صدر اپنا اختیار استعمال کرسکتا ہے۔
اسد رحیم نے کہا کہ چونکہ گورنر خیبرپختونخوا کے کردار کو اب بھی ترجیح دی گئی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ جس پہلے عہدیدار کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے تھا وہ گورنر ہی تھا۔گورنر کی جانب سے تاریخ کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن اس مقررہ مدت میں الیکشن کرانے پر کوئی عذر پیش کرے تو کوئی آئینی بحران تو سامنے نہیں آئے گا؟ماہر قانون نے کہا کہ کئی سال بعد یہ تشویشناک صورتحال دیکھنے کو ملی
کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا جو بنیادی مقصد ہے یعنی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا، اس پر کمیشن نے اپنے ہاتھ کھڑے کرلیے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کا بھی فیصلہ تھا کہ انتخابات منعقد اور اس کا انتظام کرنا کمیشن کا کام ہے اس لیے آپ اس سلسلے میں قدم بڑھائیں۔اسد رحیم نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن پر آئینی پابندی ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات لازمی کرانے ہیں، چنانچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے
مالی وسائل اور امن و امان کی صورتحال کے جو عذر پیش کیے جارہے تھے وہ ایک طرح سے بے بنیاد ہوگئے ہیں۔سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے ماہر قانون سالار خان نے کہا کہ اس میں 2 نکات دیکھنے والے ہیں (1) عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے 90 روز کی مدت آگے بڑھانے کی اجازت دی ہے (2) اختلافی نوٹس کی بنیاد پر اکثریتی فیصلہ مبہم ہے۔سالار خان نے کہاکہ فیصلہ آئین کی واضح ہدایت کی توثیق کرتا ہے کہ انتخابات 90 روز کے اندر ہوں گے جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا لیکن اب جیسا کہ اس وقت چیلنج یہ یقینی بنا رہا ہے کہ عدالتی حکم کو نافذ بھی کیا جائے۔سالار خان نے کہا کہ اس بات کا اندازہ لگانا کہ جو ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے ان کے نوٹس کے کیا معنی ہیں جنہیں آسانی سے غیر متعلقہ قرار دے کر مسترد کردیا گیا
لیکن اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس سے سوال کا سامنا کرنا ہوگا کہ واقعی اکثریت کا فیصلہ کیا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس کا ہمیں سامنا نہیں ہونا چاہیے تھا۔انہوںنے کہاکہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن کی گورنر سے مشاورت کی حد تک یہ واضح ہے لیکن صدر سے مشاورت کی وجوہات دلچسپ ہونی چاہئیںاس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے ماہر قانون عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ اصل میں 9 رکنی بینچ یا فل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہیے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور طارق مسعود بھی شامل ہونے چاہیے تھے، اگر ایسا ہوجاتا تو ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوجاتا۔انہوں نے کہا کہ لیکن پھر شاید جس طرح کا فیصلہ ابھی آیا ہے وہ تعداد سے ظاہر نہیں ہوسکتا تھا، تنقید ہے ہی یہ کہ بینچز یہ نظر میں رکھتے ہوئے تشکیل دیے جاتے ہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوگا اور یہ تنقید بجا ہے۔