لاہور ( این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے 1947ء سے ابتک توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست پر تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 19جنوری تک ملتوی کر دی ۔ گزشتہ روز عدالت عالیہ میں جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست گزار منیر احمد کی جانب سے وکیل اظہر صدیق کے توسط سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سیکشن آفیسر توشہ خانہ ندا رحمان ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں اور بتایا کہ ہم نے کمیٹی بنا دی ہے جو دیکھ رہی ہے کہ کون سی تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں ۔جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب چیزیں پبلک ہو گئی ہیں تو باقی کیوں چھپائی جا رہی ہیں ۔ اگر توشہ خانہ کی تفصیلات نہیں دے سکتے تو اسکی وجوہات بتائی جائیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 جنوری تک ملتوی کر دی ۔درخواست گزار منیر احمد کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے ذریعے دائر رٹ پٹیشن میں وزارت پارلیمانی امور، وزارت داخلہ اور وزارت انفارمیشن کمیشن کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی کہ معلومات کا حق ایک ترقی پسند جمہوری ریاست کا لازمی جز ہے، اعلی عدالتیں بھی واضح کرتی ہیں کہ عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات کا حق بلاشبہ ایک بنیادی حق ہے جس کی آئین کے آرٹیکل 19 اور (19اے) کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق معلومات کا حق اس ضرورت کے تحت ناگزیر ہوتا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے کے ارکان کو ان تمام معاملات سے آگاہ کیا جانا چاہیے جو ان سے جڑے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
لہٰژذا انہوں نے استدلال کیا کہ پاکستان کے عوام کو سرکاری عہدیداروں اور اپنے منتخب نمائندوں کے ہر اس عوامی عمل سے آگاہ ہونے کا حق ہے جو عوامی طریقے سے کیا جاتا ہے۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر ہر عوامی لین دین کی تفصیلات جاننے اور عوامی اہمیت کے تمام معاملات کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کا حق ہے۔انہوں نے استدلال کیا کہ یہ لوگوں کو سماجی اور اخلاقی مسائل اور عوامی اہمیت کے معاملات پر بحث میں حصہ ڈالنے کا اہل بناتا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست منظور کی جائے اور جواب دہندگان کو حکم دیا جائے کہ وہ حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو تحفے میں دیئے گئے اثاثوں کی تفصیلات عام کریں اور ان افراد/اہلکاروں کے نام، تفصیلات، معلومات، دستاویزات اور متعلقہ مواد بھی فراہم کریں جنہوں نے ادائیگی کرکے وہ چیزیں خریدیں۔درخواست گزار نے توشہ خانہ کی اشیا کی قیمت کے تعین کے لیے استعمال کیے گئے طریقہ کار کی تفصیلات بھی طلب کیں۔