لاہور(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ منصوبہ بندی کے ذریعے عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی،گجرات میں پولیس کی تعداد کم کر کے حملے کا موقع فراہم کیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو انکشاف ہوئے وہ عوام کے سامنے رکھیں گے، ابتدائی پولیس تفتیش میں ثابت ہوا حملہ آور 3 تھے،
ایک حملہ آور گرفتار ہے دوکی تلاش جاری ہے، جائے وقوعہ سے 14 خول برآمد ہوئے، 9 خول سامنے موجود عمارت سے ملے ہیں، خولز تین مختلف ہتھیاروں سے استعمال کئے گئے،عمران خان کے تمام گارڈز کے اسلحہ کی فرانزک کرائی گئی، فرانزک میں ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان کے گارڈز کی طرف سے کوئی فائر نہیں ہوا۔ مشیر برائے داخلہ و اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ، مشیر وزیر اعلی برائے انسداد بدعنوانی و پراسیکیوشن بریگیڈیئر (ر)مصدق عباسی،ترجمان وزیر اعلیٰ و پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ اور حسان خاور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے مذہبی انتہا پسند کے ہاتھوں قتل کے حوالے سے پہلے ہی بیان ریکارڈ کرا دیا تھا، عمران خان پر حملے کے بعد ہسپتال پہنچنے سے پہلے ایک اعترافی ویڈیو ریلیز کی جاتی ہے، اس کے فوری بعد کچھ صحافی اس کو ٹویٹ کرتے ہیں، ڈی پی او گجرات نے کیمرہ ایس ایچ او کو دیا اور کہا حملہ آور کی ویڈیو بنائیں، ڈی پی او کو تفتیش کیلئے بلایا گیا لیکن وہ شامل تفتیش نہیں ہوئے، آخر ڈی پی او کو شامل تفتیش ہونے سے کون روک رہا تھا؟، سابق آئی جی فیصل شاہکار سے رابطہ کیا تو ڈی پی او کا فون حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ حملہ آور ایک نہیں تین تھے،معظم کو جو گولی لگی یہ بات یقینی ہے کہ گولی دوسرے شوٹر نے ماری، ملزم نوید کو قتل کرنے کیلئے شوٹر کو بھیجا گیا تھا، ملزم نوید کو قتل کرنے کیلئے جو شوٹر تھا اس کی گولی سے معظم شہید ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کو کون روک رہا تھا کہ ریکارڈ اور دستاویز پیش نہ کرے، جس دفترمیں ویڈیو بنائی گئی اس میں رنگ و روغن کر دیا گیا، ملزم نوید جو آئی پیز استعمال کر رہا تھا وفاقی ایجنسی نے ڈیٹا دینے سے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جاوید لطیف نے عمران خان پرتوہین مذہب کا الزام پریس کانفرنس میں لگایا، مریم اورنگزیب، راناثنا اللہ بھی وہی گفتگو کرتے ہیں،
لیگی رہنماؤں نے جو کہا وہی گفتگو خواجہ آصف بھی دہراتے ہیں۔لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں عمران خان پر حملے کے لئے پوری منصوبہ بندی کی گئی اور اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی،قاتلانہ حملے میں عمران خان کی جان لینے کی کوشش کی گئی، عمران خان پر حملے کا مقصد ملک میں انتشار پھیلانا تھا۔مشیر داخلہ و اطلاعات عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ عمران خان پر حملے میں گرفتار شخص کے حوالے سے تاثر دیا جا رہا تھا کہ وہ ایک مذہبی جنونی شخص تھا اور اکیلا اس حملے میں ملوث تھا۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ عمران خان پر حملے میں تین افراد ملوث تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہ ڈی پی او گجرات اور کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا۔ پہلے دن سے جن افراد کو عمران خان نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے میں نامزد کیا وہ نہ صرف جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے بلکہ آج بھی اپنی سیٹوں پر براجمان ہیں۔ وفاق کے زیر انتظام آنے والی ڈیٹا ٹریکنگ اور ٹریسنگ کی کچھ ایجنسیاں بھی متعلقہ ڈیٹا جے آئی ٹی کے ساتھ شیئر کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے کہا امید ہے وفاق جے آئی ٹی کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کرے گا۔