لاہور( این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 23دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر نے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک تب اٹھے گا جب بڑے اور مشکل فیصلے ہوں گے ،قوم کو مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم اس ملک کو اٹھا سکتے ہیں وہ حکومت اٹھا سکتی ہے
جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہو ، اللہ کے بعد اس ملک کے وارث عوام ہیں اور میں عوام میں سے ہوں ، ہم نے ایک قوم بن کر اس مشکل وقت سے نکلنا ہے ،صاف اور شفاف انتخابات کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی ، عوام انتخابات کے ذریعے ان چوروں کا اورکرپٹ نظام کا مقابلہ کریں ، انتخابات میںان کو سبق سکھائیں ، میں نہیں چاہتا یہاں بھی سری لنکا جیسی صورتحال ہو ، انہیں ایسی شکست دیں کہ ان کا ہمیشہ کے لئے نام و نشان مٹ جائے ،ہم نے ساری منصوبہ بندی کر لی ہے کہ ملک کو کیسے مشکلات کی دلدل سے باہر نکالنا ہے ۔پچاس سالوں میں پہلی بار مہنگائی ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور خیبر پختوانخواہ کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ہمراہ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آج ہماری اپنی حکومت ہے ہمارا اپنا راج ہے لیکن ہم کیوں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہمیں اپنی حکومتیں بھی قربان پڑیں تو ہم وہ کریں گے ، یہ اس لئے کہ اس ملک میں جب تک صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوں گے ملک ڈوبتا رہے گا ، میرا جینا مرنا پاکستان میںہے ،میری طرح کے وہ سارے پاکستانی جو اس ملک سے پیار کرتے ہیں عشق کرتے ہیں ، میں ان چورتوں کی بات نہیں کر رہا جو پیسہ چوری کر کے باہر بھیجتے ہیں جن کے کاروبار اور بچے باہر ہیں اورشاہانہ زندگی گزارتے ہیں ان کا اس ملک سے کیا رشتہ ہے ؟باقی پاکستانیوں کا جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے
میں ان سے مخاطب ہوں ہم نے ملک کو بچانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں برطانیہ کا پاسپورٹ لے سکتاتھا لیکن کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا کہ میرا پاکستان کے علاوہ کوئی گھر ہے ، مجھے پہلی دفعہ خوف آرہا ہے جو چوروں کا ٹولہ بٹھایا گیا ہے یہ ملک کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے ،کسی کاروباری شخص سے پوچھ لیں کسانوں سے پوچھ لیںمزدور صنعتکار سے پوچھ لیں
ان کی آمدنی اور خرچے میںکوئی تواز ن نہیں رہا ، پچاس سال کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی ہے ،آج ہماری انڈسٹری بند ہو رہی ہے ںوہ انڈسٹری جسے ہم نے بڑی مشکلوں سے مراعات دے کر کھڑا کیا وہ آج تباہی کے دہانے پرہے ، ہمارے ملک کی دولت بڑھ رہی تھی ریکارڈ برآمدات تھیں ،ریکارڈ ٹیکسز اکٹھے کر رہے تھے، ساڑھے چار فیصد پر زراعت میں گروتھ ہوئی ،
ایک چیز بتائیں کہ ان چوروں کے دور میں پاکستان میںکس چیز میں بہتری ہوئی ہے ،مایوسی کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے سات لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں جو پروفیشنلز تھے ان پر ملک کا پیسہ خرچ ہوا تھا ۔انہوںنے کہاکہ آج یہ عالم ہے کہ ملک کو وہاں لے آئے ہیں کہ ڈاکو راج اوپر بیٹھ گیا ہے ، تیس سال سے جو لوگ لوٹ رہے تھے انہیں اوپر بٹھا دیا گیا ہے۔
میرا سوال ہے کہ جب ملک ترقی کر رہا تھا جو ملک کا دیوالیہ کا نکال کر گئے تھے انہیں کیوں دوبارہ بٹھا ای گیا ،ہم نے اس پاکستان کو سنبھالا دو سال کورونا میں ساری دنیا میں عذاب آیا ہوا تھا معیشت تباہ تھی اس کے باوجود پاکستان ٹاپ تین ممالک میں تھا ہم نے ملک کو سنبھالا معیشت کو سنبھالا لوگوں کو بیروزگار ہونے سے بچایا ، سترہ سال کے بعد پاکستان کی دولت میں اضافہ ہوا تھا
تیسرے سال میں ہماری گروتھ5.7فیصد اور چوتھے سال 6فیصد تھی۔ سوال ہے کہ کون ذمہ دار تھا اس رجیم چینج کا ؟، جب آپ کی معیشت بڑھ رہی تھی کیا وجہ تھی اس حکومت کو گرا کر چوروں کے ٹولے کو اوپر بٹھایا گیا کون اس کا ذمہ دار کون اس کا جواب دے گا ، جو معیشت اوپر جارہی تھی لیکن آج پاکستان کے جوحالات ہیں باہر کی دنیا کہہ رہی ہے پاکستان کو قرضے دیں گے تووہ قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں
اور ڈیفالٹ رسک سو فیصد ہے ہمارے دور میں یہ پانچ فیصد تھا ،ایسے حالات میں باہر سے کوئی سرمایہ کاری نہیں آئے گی دس ماہ سے سرمایہ کاری آدھی ہو گئی ہے ، ہمارے دور میں ترسیلات زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں، ہمارے دور میں 33ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں، 6100ہزار ارب ر وپے کے ٹیکس کلیکشن ہوئی آج یہ سب کچھ نیچے جارہا ہے ،انڈسٹری بند ہو رہی ہے بیروزگاری بڑھ رہی ہے ۔عمران خان نے کہاکہ آج ملک کا یہ حال ہے کہ نہ باہر سے کوئی اعتماد ہے
اور 88فیصد پاکستان کے جوسرمایہ کار ہیں تاجر ہیں ان کا کہنا ہے ہمیں اس حکومت پر اعتماد نہیں ہے ،جب باہر سے پیسہ نہیں آرہا قرضوں کی اقساط ڈالر میں واپس کرنی ہیں جو بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں ان کی کیپسٹی پے منٹ کی ڈالر میں ادائیگی کرنی ہے ، قرضے ہمارے بڑھتے جارہے ہیں ، انہوں نے ایک ہی امید لگائی ہوئی ہے کہ جا کہ چین سے پیسے لے لیں گے یا آئی ایم ایف کے پائوں پکڑیں گے ، کینسر کا علاج ڈسپرین سے کر رہے ہیں جو عارضی ہے ۔ ملک کی دولت میں اضافہ ہوگا تو قرضے واپس کریں گے،
ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیںہے ۔ آج ہر چیز نیچے جارہی ہے خوف ہے کہ ڈیفالٹ کی طرف جارہے ہیں،ایل سیز نہیںکھل رہیں ،بیرونی ادائیگیاں نہیں کر پا رہے ان کے پاس کیا روڈ میپ ہے ،یہ ایک چیز چاہتے ہیں کسی نہ کسی طرح انتخابات میں تاخیر ہو اور یہ اس لئے نہیں کہ یہ معیشت کو اٹھا لیں گے بلکہ یہ انتخابات سے خوفزدہ ہیں یہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے ملک کو تباہ کر رہے ہیں، یہ اکتوبر میں بھی انتخابات نہیں کرائیں گے،الیکشن کمیشن ان کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ ان کے طریقے بتائے گا کیسے انتخابات میں تاخیر کی جا سکتی ہے ۔
پاکستان کا آئین کہتا ہے اسے نوے روز میں انتخابات کرانے کے لئے تیار ہونا چاہیے ، ان کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح انتخابات کھینچے کیونکہ انہیں پاکستان کی فکر نہیں ہے ان کے پیسے ڈالر میں باہر پڑے ہوئے ہیں ان کی دولت میں تو اضافہ ہوتا ہے ،جب مشکل آتی ہے یہ باہر بھاگ جاتے ہیں ۔ سوال ہے کون ذمہ دار ہے کس نے چلتی ہوئی حکومت کو گرایا ،بیرونی سازش کا حصہ دار بننے کا کون ذمہ دار ہے ،اس کا ایک آدمی ذمہ دار ہے جو قمر جاوید باجوہ ہے ، میں اس وقت اس لئے بات نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ آرمی چیف تھے تاکہ فوج پر کوئی حرف نہ آئے ،
ہم تو اپنی فوج کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم آزاد رہ سکیں ۔انہوں نے کہاکہ یہ سازش ہوئی تھی آرمی چیف انہوں نے فیصلہ کیا ہمیں ہٹانے ،کیا وجہ تھی کیا سمجھتے تھے کہ شہباز شریف اور اسحاق ڈار بہت جینئس ہیں ، جب حکومت گر گئی توعوام ہمارے ساتھ کھڑے ہو گئی ، لوگوںنے چوروں کو مسترد کر دیا ورہماری مقبولیت بڑھنا شروع ہو گئی ،جب ضمنی انتخابات کرائے گئے پوری کوشش کے باوجود ہمیں کامیابی ملی، بجائے غلطی کو سمجھا جاتا ہمارے اوپر ظلم کیا گیا ،جنرل مشرف کے مارشل لاء میں بھی ایسا ظلم نہیں ہوا ۔غلطی کی تصحیح کرتے ہمارے اوپر ظلم شروع کر دیا ۔ سوشل میڈیا کے لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے
ان کو پھینٹا لگا کر گھر بھجوا دیتے تھے۔عمران خان نے کہاکہ این آ او ٹو قمر جاوید باجوہ نے دیا ہے ، جنرل باجوہ کو کہتا رہا یہ تیس سالہ سے چوری کر رہے ہیں نیب آپ کے نیچے ہے، نیب میرے نیچے نہیں ہے کیس کیوں آگے نہیں بڑھاتے ، جس پر کہتے آپ فکر نہ کریں سب کچھ ہو رہا ہے، آہستہ آہستہ پتہ چلا ان کی کوئی نیت ہی نہیںکرپشن ختم کرنے کی ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ ملک کی معیشت کو ٹھیک کریں آپ احتساب کو بھول جائیں ۔ بڑے بڑے لوگ جو اربوں روپے کی چوری کریں انہیں این آر او دیدیں اور چھوٹے چوروں کو پکڑیں اس سے ملک ترقی کر سکتا ہے؟ ۔انہوں نے کہاکہ شہباز شریف کو بچایا گیا ، سلیمان شہباز کیوں باہر بھاگا تھا ۔
انہوں نے کہاکہ قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ آپ کے لوگوں کی کرپشن کی فائلیں ہیں ان پر فلمیں اور ویڈیوز بنی ہوئی ہیں، ان سے پوچھیں ہماری ایجنسیز کا یہ کام ہے کہ گندی ویڈیوز بنائیں فائلیں بنائیں کیا یہ کام رہ گیا ہے ، ایسا کہاں ہوتا ہے، جب میں وزیر اعظم تھا میرے گھر کا فون ٹیپ کیا ہوا تھا اس کے بعد لیک کرتے ہیں ۔بچہ بچہ جانتا ہے این آر او ٹو باجوہ نے دیا ہے ، نہیں دیا تو پبلک میں جا کر عوام کو بتائیں ، آپ نے احتساب نہیں ہونے دیا ۔ فیٹف کی قانون سازی میں اپوزیشن کو آپ کی آشیر باد ملی تھی ،نیب ترامیم تو تب کرانے کے چکر میں تھے۔انہوںنے کہا کہ مجھے سازش کا پوری طرح پتہ تھا ، حکومت کے ہٹنے سے ایک سال پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ شہباز شریف کو لانے کی تیاری ہو رہی تھی،
جب بھی قمر جاوید باجوہ سے پوچھتا تھا تو وہ کہتے تھے ہم کسی صورت ایسا نہیں کر سکتے ہم تسلسل چاہتے ہیں، پھر کون ذمہ دار ہے کوئی اس کا جواب دے گا اچھی بھلی چلتی حکومت کو گرا کر چوروں کو اوپر لے آئے ، کیا ہم بھیڑ بکریاں ہیں کیڑے مکوڑے ہیں، میںنے خود قمر جاوید باجوہ سے سنا یہ کرپٹ ہیں اب یہ ملک کو ٹھیک کریں گے؟۔عمران خان نے کہاکہ ہم انسان ہیں یا جانور ہیں جو بند کمروںمیں فیصلہ ہواس پر چل پڑیں گے،میرا تو فائدہ کرا دیا اللہ نے اتنی عزت دی نہیںجتنی اب ملی ہے ، انہوں نے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے، ان کے بچے ملک لوٹنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور وہ لوٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اسمبلیوں کی تحلیل پر کہا گیا کہ حکومت چھوڑ دیں توآپ پر ظلم ہو گا آپ کا تحفظ چلا جائے گا،جب میں مارچ میں جارہا تھا میری جان کو خطرہ تھا، جب جانے سے پہلے بشریٰ بیگم کو سلام کرتاتھا تو وہ کہتی تھیںجائو یہ جہاد ہے یہ آپ اللہ کے لئے کام کر رہے ہو ۔ کوئی اپنی زندگی پیسے یا اقتدار کے لئے خطرے میں نہیں ڈالتا ، جیسے چلنے کے قابل ہوگا پھر باہر نکلوں گا،ظلم اور نا انصافی کے خلاف کھڑا ہونے کو اللہ جہاد کہتا ہے،ساری قوم کو کہہ رہا ہوں ، دو راستے ہیں ان کو چوروںکو مان لیں تو ملک کی تباہی کر لیں یا دوسرا راستہ ہے جدوجہد کر لیں ،یہ فیصلہ کن وقت ہے اسے ضائع نہ ہو نے دیں۔انہوںنے کہاکہ ہم دھرنا دے سکتے ہیں اسلام آباد کی طرف جا سکتے تھے خون خرابہ ہونا تھا اورلوگ چاہتے ہیں خون خرابہ ہو لاشیں ملیں ان کی تحریک اٹھ جائے لیکن میں نے دو اسمبلیوں کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا اس سے ملک کے لئے66فیصد انتخابات ہوں گے،
عقل تو یہ کہتی ہے آپ عام انتخابات کرا دیں ،یہ الیکشن ہارنے سے ڈرے ہوئے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کیسے چوری کا پیسہ بچانا ہے اس لئے انتخابات نہیں کرائیں گے، ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح تاخیر ہو جائے لیکن آئین اجازت نہیں دیتا کہ نوے دن سے تاخر ہو ۔انہوںنے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ میرے ساتھ چلیں ہیں، ہم اگلے جمعہ کو دونوں پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے اس کے بعد انتخابات کی تیاری کریں گے۔عمران خان نے کہاکہ قومی اسمبلی کے 123اراکین قوی اسمبلی میں سپیکر کے سامنے جا کر کہیں گے ہمارے استعفے قبول کرو ، یہ ڈرامے نہ کرو ۔ انہوںنے کہا کہ میں قوم کہتا ہوں مایوسی گنا ہے ،ان چوروں کا اورکرپٹ نظام کا مقابلہ کریں اور الیکشن کے ذریعے ان کو سبق سکھائیں ، میں نہیں چاہتا یہاں سری لنکا جیسی صورتحال ہو ، انہیںایسی شکست دیں ہمیشہ کے لئے ان کا نام و نشان مٹ جائے اور یہ تب ہوگا جب سب اپنی اپنی ذمہ داری لے کر نکلیں گے۔