کراچی(این این آئی)سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ( ن) کے مرکزی سینئرنائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت ایک دو روز میں خراب نہیں ہوئی یہ دس سے بارہ سال کے دوران کی گئی غلطیوں کا نتیجہ ہے، ملک پر اثرا انداز ہونے والے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے عدلیہ، سیاست اور عسکری قائدین کو یکجا ہونا پڑے گا، الیکشن جب بھی ہوں حکومت کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے
ملک کی معیشت کی درستگی کا بوجھ سب کو مل کر برداشت کرنا ہوگا، موجودہ نظام حکومت ناکام ہوچکا 2018کے الیکشن کے اثرات نے ملک کے 10سال ضائع کردیئے 2018سے قبل کی معاشی حالت واپس لانے کے لیے 5سال جدوجہد کرنا پڑیگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز میں میٹ دی ایڈیٹر کے دوران کونسل کے عہدے داران اور مدیران کے ساتھ ملک کی سیاست اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حالات میں سیاست کو پس پشت رکھتے ہوئے معیشت کو ترجیح دینا ہوگی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کو تاریخ کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں مداخلت نہ ہوتی تو ملک کے حالات مختلف ہوتے جب سے سیاست شروع کی کوئی الیکشن نہیں دیکھا جس میں مداخلت نہ ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ2018کے انتخابات میں کیا ہوا سب کے سامنے ہے اس الیکشن کے اثرات ابھی مزید بھگتنے ہوں گے۔ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اتحادی حکومت بنانا مشکل لیکن کسی جماعت کے پاس واضح اکثریت نہ ہوتو حکومت بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ کب مناسب سمجھیں اور اسمبلیاں توڑ کر 90روز میں انتخابات کرائیں تاہم یہ فیصلہ کسی دبا میں نہیں کیا جاسکتا جس طرح سڑکوں پر آکر دبا ڈالا گیا اس کے بجائے عدم اعتماد کا راستہ ہے۔ حکومت اس وقت توڑی جاتی ہے جب یہ اعتراف کیا جائے کہ
حکومت چلانے میں مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں توڑ کر وفاق پر دبا ڈالنا آئین کے منافی ہے اگر دو اسمبلیاں توڑی گئیں تو ان ہی صوبوں میں انتخابات کرائے جائیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے نیب کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک آمر کے بنائے ادارے کو سیاسی جماعتیں گلے سے لگاکر بیٹھیں ہیں اس ادارے کی وجہ سے سرکاری افسران فیصلہ کرنے سے گریز کررہے ہیں جس سے مشکلات پیدا ہوئیں،
سب کے سامنے ہے کہ کس طرح ایک لیڈر کو ججز کو بلیک میل کرکے اور جھوٹے مقدمات بناکر مجرم بناکر پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھتر سال میں حکومت کا نظام ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا عدلیہ، سیاسی لیڈر شپ عسکری لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے کہ اس نظام کی تصحیح کریں۔
معاشی دیوالیہ کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ڈیفالٹ کی حالت ایک روز میں نہیں آتی یہ ایک عشرہ کے غلط فیصلوں یا فیصلے نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 100سال میں 49ممالک دیوالیہ ہوئے اور 125کے لگ بھگ ملکوں نے خود کو اس صورتحال سے نکالا، ڈیفالٹ کے عوام پر بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں تاہم یہ ان فیصلوں سے کم گہرے ہوتے ہیں
جو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہو وہاں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ان حالات کا حل سیاسی سوچ سے ہی نکالا جاسکتا ہے جس کے لیے لیڈر شپ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے حکومت کے اخراجات پر تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزرا کی تعداد نہیں کارکردگی دیکھی جائے وزرا محدود تنخواہ میں اربوں روپے کے فیصلے کرتے ہیں
آپ جاکر عوامی نمائندوں وزرا کے دفاتر دیکھیں اور نیب کے افسران کے دفاتر دیکھیں واضح فرق نظر آئے گا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک میں کہیں بھی لوکل گورنمنٹ نظام کامیاب نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام ایم پی ایز اور ایم این ایز کی سیاست پر اثر ڈالتا ہے
ایم این ایز اور ایم پی ایز وہ اختیارات اور وسائل استعمال کرتے ہیں جو لوکل گورنمنٹ کو ملنے سے ان کی سیاست متاثر ہوتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں صوبائی، وفاقی یا لوکل گورنمنٹ کا نظام نتائج نہیں دے سکتا اس کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سابق وزیر نے کہا کہ پوری دنیا میں اسٹیبلشمنٹ، جمہوریت اور آئین ایک حقیقت ہے
اور ان میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے یہ اختلاف ملک کو فائدہ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں بہت نقصان ہوا۔ ملک میں ڈالر کی قلت اور قیمت میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ڈالر کی آمد کیمقابلے میں آٹ فلو زیادہ ہے طلب و رسد کا یہ فرق ہی شرح مبادلہ کا تعین کرتا ہے پوری دنیا میں کماڈیٹیز کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں اور پاکستان پیٹرولیم مصنوعات سمیت خوراک میں شامل اشیا پتی،
دالیں تک درآمد کرتا ہے ایسے میں سرمایہ دار افراط زر کے اثرات سے اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈالر میں سرمایہ منتقل کرتے ہیں اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کے بعد حکومت کے پاس شرح مبادلہ کے تعین کا اختیار نہیں رہا۔ نواز شریف کی واپسی کے بارے میں ایک سوال پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کیا ہم بھول گئے کے منتخب
وزیر اعظم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا انہیں 9سال پہلے آمدورفت کے لیے بیرون ملک کمپنی میں ڈائریکٹر شپ کی مالی مراعت اور تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا یہ معیار کسی سیاسی لیڈر پر لگایا جائے تو وہ باقی نہ رہے ایوان خالی ہوجائیں بینچ خالی ہوجائیں، عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ نواز شریف کے معاملے میں کیے گئے اس معاملے کی درستگی کی جائے، نواز شریف اپنی واپسی کا فیصلہ وقت آنے پر کریں گے ان کے صحت سے متعلق دو پراسیجرز ابھی باقی ہیں۔