کراچی(آن لائن)ملک کے معروف معاشی تجزیہ نگاراورکورنگی ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (کاٹی)کے سابق چیئرمین جوہر علی قندھاری نے کہا ہے کہ اس وقت ملکی معاشی صورتحال کچھ زیادہ بہتر اور آئیڈیل نہیں ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 78 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کمی کے ساتھ 6 ارب 72 کروڑ ڈالر پر آگئے
جو کہ تقریباً 4 سال کی کم ترین سطح ہے،وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کی سربراہی سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ہ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں ملوث بینکوں کو قابو کرینگے اور ڈالر کو200روپے کی سطح تک لائیں گے مگر وہ اپنے وعدے کو پورا نہیں کرپائے،اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے موجودہ ملی جلی حکومت کا اولین ایجنڈا زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ رہا، تاہم اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اس وقت سے اب تک تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی آچکی ہے جوکہ اُس وقت 10 ارب 90 کروڑ ڈالر تھے۔ ذخائر میں کمی پاکستان کے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مزید مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ اب جو ذخائر موجود ہیں وہ ایک ماہ سے بھی کم مدت کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک تو یہ کہہ رہے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے اور تمام بیرونی ادائیگیاں بروقت کی جائیں گی اور انکا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگالیکن بظاہر یہ لفاظی دکھائی دے رہی ہے۔اپنے ایک بیان میں جوہرعلی قندھاری نے کہا کہ بھاری غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملک کی صلاحیت پر تشویش کاواضح طور پر اظہار کیا جارہا ہے، مسلسل خدشات نے مارکیٹ میں بھی مایوسی پیدا کی ہے اور جاری مالی سال کے دوران شرح تبادلہ غیر مستحکم رہاہے، میرا خیال ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے تقریباً 8 کھرب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنا ہوگا،
حکومت کو یہ اضافی آمدن حاصل کرنے کا بوجھ عوام کی جیبوں پر ڈالنے کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی جو کہ اس کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ا س وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈالرانٹربینک میں 225روپے تک ہے لیکن بینک امپورٹرز کو ڈالر بلیک میں فراہم کررہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 232 روپے پہنچ گیا ہے،سوال یہ ہے کہ امپورٹرز اور ایکسپورٹرزجائیں کہاں، صنعتوں کو بجلی،گیس اور پانی مقررہ مقدار میں دستیاب نہیں تو پھر ایکسپورٹ کیسے ہوگی
اور اگر ایکسپورٹ نہ ہوئی تو ملک میں ڈالر کیسے آئیں گے۔ اب تو شائد بیرون ممالک مقیم پاکستانیز بھی ڈالر بھیج بھیج کر تھک گئے ہیں شائد اسی لئے اب ترسیلات زر میں کمی آتی جارہی ہے۔جوہرعلی قندھاری کاکہنا تھا کہ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جبکہ حزبِ اختلاف کے لوگ عموماًحکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں اوربہت ہی کم ایسا ہوا کہ یہ حکمران اور اپوزیشن ایک پیج پرہوں، پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی غیر مستحکم سیاسی صورتحال ہے۔