لاہور(این این آئی)وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے عمران خان کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا، باجوہ صاحب نے کہا آپ کیلئے عمران خان والا راستہ بہتر ہے، پی ٹی آئی چیئرمین کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑنے کو تیار ہوں لیکن مارچ تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا، اسمبلی توڑنے کا فیصلہ حکومت
کے رویے پر منحصر ہے، 4 ماہ کیلئے کچھ نہیں ہوگا، ہماری پالیسی ہی نہیں ہے کہ اداروں کیخلاف بات کریں، عمران خان کو میر صادق، میر جعفر نہیں کہنا چاہیے تھا، اگر فیض صاحب میری کچھ باتیں مان لیتے تو ہمارے4سال ضائع نہیں ہوتے، نہ جنرل(ر)باجوہ نے ڈبل گیم کی اور نہ عمران خان نے۔نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ ن لیگ کی طرف جاتے جاتے اللہ نے راستہ تبدیل کیا اور راستہ دکھانے کیلئے اللہ نے جنرل (ر)باجوہ کو بھیج دیا، باجوہ صاحب سے کہا کہ شریفوں کا اعتبار نہیں ہے۔وزیراعلی پنجاب نے مزید کہا کہ سابق آرمی چیف سے کہا تھا کہ شریفوں نے آپ کیساتھ بھی یہی کیا، باجوہ صاحب نے کہا میرے ساتھ جو ہوا وہ چھوڑیں، باجوہ صاحب نے کہا اپنی بات آپ خود سوچیں، لیکن سوچ کر چلیں۔انہوں نے کہاکہ اسمبلی توڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا، ہمارا آئندہ سیاسی سفر عمران خان کے ساتھ ہی ہو گا۔ایک اور انٹرویو میں چودھری پرویز الہٰی نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑنے کو تیار ہوں لیکن مارچ تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا، نہ جنرل(ر)باجوہ نے ڈبل گیم کی اور نہ عمران خان نے ایسا کیا، اداروں کیساتھ ہمارے ذاتی تعلقات بہت پرانے ہیں، اداروں کے جتنے قریب ہوں گے حالات اور واقعات پر نظر زیادہ رہے گی، 3سے 4روز پہلے ملاقات میں سسٹم اور نظام پر بات ہوئی تھی، ادھر سے بھی شکایات تھیں جس پر وہاں سے بھی وضاحت ضروری تھی،
ہمیں اداروں پر تنقید نہیں کرنی چاہئے، مونس الٰہی نے بھی کہا کہ باجوہ صاحب پر تنقید نہ کی جائے، ہماری پالیسی ہی نہیں ہے کہ اداروں کیخلاف بات کریں۔وزیراعلی پنجاب نے کہاکہ ہم عمران خان کے ساتھ 4 سال سے چل رہے ہیں، ق لیگ کو عمران خان پر مکمل اعتماد ہے، عمران خان کو حلف اٹھانے سے پہلے ہی کہا تھا جب کہیں گے اسمبلی توڑ دیں گے،
تحریک انصاف کے ارکان نے عمران خان کو کہا کہ آپ زخمی ہیں 4 ماہ تک کچھ نہ کریں، 4 ماہ کے لیے کچھ نہیں ہوگا، اسمبلی توڑنے کا فیصلہ حکومت کے رویے پر منحصر ہے، مارچ تک اصلاحات اور الیکشن کمیشن پر بات ہونی چاہیے، ہم نے جو زبان دی اس پر پورا اتریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شریفوں پر کوئی اعتبار نہیں، سیاسی معاملات پر اداروں سے مشاورت کی،
سیاسی اتحاد پر اداروں سے بات کی تو انہوں نے کہا آپ خود فیصلہ کریں، اداروں سے میں نے بات کی، چودھری شجاعت کی کوئی بات نہیں ہوئی، میری نظر میں عمران خان کا ساتھ دینے سے متعلق فیصلہ درست تھا، نہ میں فیض صاحب کو غلط کہوں گا نہ موجودہ حکومت کو، مونس الہٰی نے کابینہ اجلاس میں کہا تھا باجوہ نے آپ کیلئے بہت کچھ کیا ہے، مونس الٰہی نے کہا تھا عزت دینے سے آپ کی عزت بڑھے گی۔
چودھری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ فیض صاحب کا ایشو عجیب طرح کا تھا، اگر فیض صاحب میری کچھ باتیں مان لیتے تو ہمارے 4 سال ضائع نہیں ہوتے، عثمان بزدار کو میں نے ہی آگے کیا، ان کے والد کے ساتھ تعلقات تھے، ہمارا صوبہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، عثمان بزدار کا مجھے لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض اور جہانگیر ترین نے بتایا تھا، ہم تو صرف کہہ سکتے ہیں لیکن فیصلہ آگے لیڈر شپ نے ہی کرنا ہے،
ہم نے اپنی طرف سے ہمیشہ نیک نیتی سے بات کی ہے، ہم نے کوشش کی کہ معاملات سلجھ جائیں، اللہ کو منظور نہ ہوتا، کہیں معاملات نہیں سلجھتے، عمران خان پر حملے کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کی خلیج آگئی۔انہوں نے کہاکہعمران خان کو میر صادق میر جعفر نہیں کہنا چاہئے تھا، عمران خان میرے لیڈر ہیں،زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا، پی ٹی آئی چیئرمین دور اندیش سوچ والے سیاستدان ہیں، ہمار ا فوج کے ساتھ بہت تعلق ہے، اس وقت فوج غیر سیاسی ہے،
چار مہینے میں سب سے پہلے 1122 کو مضبوط کیا، سود کے کاروبار پر پابندی لگا کر 10 سال کی سزا کردی، ہسپتالوں میں ایمرجنسی کو اپ گریڈ کیا گیا، ڈاکٹرز کی 3گنا تنخواہ بڑھا دی، چاہتے ہیں 15سال کے لیے معاشی پالیسی کو تبدیل نہ کیا جائے، 25 مئی کو پنجاب میں بچوں اور خواتین پر بدترین تشدد کیا گیا، نکاح کیلئے ختم نبوتﷺ کی شرط لازمی کردی ہے۔وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ شہباز شریف نے کچھ کرنا نہیں ہے، یہ ایکسپوز ہوگئے ہیں، عمران خان کو اللہ نے بچایا ہے،
گمراہ کرنے والے افراد ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں، آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا ن لیگ میں گمراہ کرنے والے افراد کون ہیں، سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی تعیناتی عمران خان نے کی، افسران لگانے کے لیے حسان خاور سے رابطے میں ہوتے ہیں، بیوروکریسی میں تبادلوں کا کوئی شوق نہیں، ہمیں عمران خان پر مکمل اعتماد ہے، عمران خان کو سب نے کہا کہ جو کرنا ہے 4 ماہ بعد کریں، عمران خان کے حکم پر ایک سیکنڈ میں اسمبلی تحلیل کردوں گا مگر مشاورت ضروری ہے، باتیں کرنے والے لوگ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھ لیں، زرداری صاحب کو مشورہ ہے کہ سندھ میں زیادہ توجہ دیں۔