اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)نے بجٹ پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے اثرات پر اختلافات پیدا کر دیے ہیں جس کی وجہ سے پروگرام کے جائزے کے لیے عالمی قرض دہندہ آئی ایم ایف کے مشن کو اسلام آباد روانہ کرنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں فریقین وزارت خزانہ کے ایک جائزے کے درمیان اس فرق کو
پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ قرضوں کی فراہمی کی زیادہ لاگت اور پیٹرولیم مصنوعات سے کم آمدنی کی وجہ سے اضافی اقدامات کے بغیر بنیادی بجٹ خسارہ رواں مالی سال میں تقریبا جی ڈی پی کا 2.8 فیصد یعنی 22کھرب روپے تک کی بلند سطح پر پہنچ سکتا ہے۔ تخمینہ شدہ اعداد و شمار سیلاب سے پہلے کے منظر نامے میں آئی ایم ایف کے ساتھ متفقہ جی ڈی پی کے ابتدائی بجٹ سرپلس ہدف کے 0.2 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس پر غیر سیلابی عوامل زیادہ اثر انداز ہیں کیونکہ بجٹ پر سیلاب کا اثر جی ڈی پی کے 0.2 فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔ریذیڈنٹ نمائندہ آئی ایم ایف ایستھر پیریزکے ساتھ حالیہ ملاقات میں اس بات پر اختلاف برقرار رہا کہ رواں مالی سال میں تعمیر نو کی کل تخمینہ لاگت 16ارب ڈالر کا کتنا اثر ہونا چاہیے۔ پاکستان آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ ڈیٹا شیئر کرے گا، جس سے یہ طے ہو گا کہ آیا آئی ایم ایف مشن کے رواں ماہ پاکستان آنے کا امکان ہے یا اس میں دسمبر تک تاخیر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف سے تقریبا 3 ارب ڈالر قرض ملنا ابھی باقی ہے جسے تین جائزوں کی تکمیل کے بعد ریلیز کیا جا سکتا ہے تاہم مالیاتی فریم ورک پر اختلافات کے علاوہ پاکستان بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت آئی ایم ایف کی کچھ دیگر شرائط کو پورا نہیں کر سکا۔جون میں طے شدہ نظرثانی شدہ شیڈول کے تحت آئی ایم ایف کو اکتوبر میں نویں نظرثانی کے لئے مشن پاکستان بھیجنا تھا جس سے 3 نومبر کو تقریبا 1.2 ارب ڈالر کی ایک اور قسط جاری کرنے کی راہ ہموار ہوتی۔
وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ بجٹ اور معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لے اور جب مضمرات واضح ہوں گے تب ہی آئی ایم ایف مشن کے پاکستان آنے کے حوالے سے تاریخ دی جا سکے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے اثرات کا تجزیہ نامکمل ہے، اس لیے آئی ایم ایف مشن دورے کی تاریخیں واضح نہیں تھیں۔
ذرائع نے بتایا کہ 440کھرب روپے سے کم کے بجٹ کی قرض کی لاگت کے مقابلے نظرثانی شدہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ قرض کی لاگت 47کھرب روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پٹرولیم لیوی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی 855 ارب روپے کے ہدف سے کم از کم 300 ارب روپے کم رہ سکتی ہے۔ پیٹرولیم لیوی کی کم وصولی اور زیادہ قرض کی خدمات کی لاگت کا اثر جی ڈی پی کا تقریبا 1.3 فیصد تھا۔
ایف بی آر کے ٹیکس 74کھرب روپے کے سالانہ ہدف سے بھی کم ہو سکتے ہیں اور آئی ایم ایف پہلے ہی 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر چکا ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے برآمد کنندگان کو 100 ارب روپے کا سبسڈی پیکج اور ایک زرعی پیکج کی پیشکش کی ہے جس کا اثر ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ اس سے وزارت خزانہ کے لیے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کے لیے کرنٹ اکاونٹ خسارے کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے کم لگایا ہے جو عالمی بینک کے اندازوں سے نمایاں طور پر کم ہے۔