اسلام آباد( آن لائن) چیف جسٹس پاکستان نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر قاتلانہ حملے کا 24 گھنٹے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، لاہور رجسٹری سے آئی جی پولیس ویڈیو لنک پر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 90 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا اور ابھی تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی۔
جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایف آئی آر کے انداج پر مشاورت کی تھی جو درخواست دی گئی اس پر مقدمہ درج کرنے پر تحفظات ہیں۔سماعت کے دوران چیئرمین تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پر حملے کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہو سکا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئی جی پنجاب بتائیں کتنے وقت میں حملے کی ایف آئی آر ہوگی، اگر ایف آئی آر میں تاخیر ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے شواہد ضائع ہو رہے ہیں، 24 گھنٹے میں مقدمہ درج نہ ہوا تو سوموٹو لیا جائے گا۔ سوموٹو نوٹس میں آئی جی صاحب آپ جواب دہ ہونگے، واقعے کی تفتیش کریں شواہد اکٹھے کریں، فرانزک کرائیں، قومی لیڈر کے قتل کی کوشش کی گئی، معاملے کی نزاکت کو سمجھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بین القوامی سطح پر کامیابیوں کا سنا ہے، آپ ایف آئی آر درج کرکے ہمیں آگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے آئی جی کو ہدایت کی کہ آپ کام جاری رکھیں، اگر کسی نے مداخلت کی تو پھر ہم مداخلت کریں گے۔صوبائی حکومت کا مختلف موقف ہو تب بھی پولیس قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قومی لیڈر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ کرمنل جسٹس سسٹم کے تحت ایف آئی آر درج ہوناضروری ہے۔ عدالت فوجداری نظام انصاف کو بلارکاوٹ چلانے کو یقینی بنائے گی۔
ایف آئی آر نہ ہونے کا مطلب ہے اب تک پولیس تحقیقات شروع نہیں ہوئیں۔ پولیس نے تحقیقات نہیں کیں تو ممکن ہے جائے وقوعہ سے شواہد مٹا دیے گئے ہوں۔ اس طرح کیس کے ثبوت متنازع اور بعد میں عدالت میں ناقابل قبول ہوں گے۔ واضح رہے ایف آئی آر کے معاملے پر آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے اپنا چارج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ آئی جی پنجاب ایف آئی آر میں شامل کرنے والے ناموں پر اعتراض کر رہے تھے جس کے بعد پی ٹی آئی، پنجاب حکومت اور آئی جی پنجاب میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے