تہران(این این آئی)ایرانی عدلیہ نے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ پر حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ان پریہ الزام ایک ایسے وقت میں عاید کیا گیا ہے جب انہون نے حال ہی میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی تھی اور پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔27 ستمبر کو مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ 59 سالہ
فائزہ ہاشمی رفسنجانی کو 16 ستمبر کو امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو “اکسانے” کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ امینی کو اخلاقی پولیس نے سخت لباس کے ضابطوں کی پابندی نہ کرنے پر گرفتار کیا تھا مگر وہ دوران حراست مبینہ تشدد سے چل بسی تھی۔عدلیہ کے ترجمان مسعود سٹائیشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ فائزہ رفسنجانی پر ملی بھگت، امن عامہ کو خراب کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔سابق رکن پارلیمنٹ اور خواتین کے حقوق کے شعبے میں سرگرم کارکن اس سے قبل حکام کے ساتھ تصادم میں ملوث رہی تھیں، اور گزشتہ برسوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ گرفتار کی گئی تھیں۔جولائی میں ان پر سوشل میڈیا پر تبصروں کی وجہ سے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے مطابق عدلیہ نے اس وقت کہا تھا کہ فائزہ ہاشمی رفسنجانی کے بیانات ایران کیقومی مفاد کے خلاف ہیں۔اپنی پریس کانفرنس میں استائیشی نے اس کے بارے میں اضافی تفصیلات فراہم کیے بغیر اشارہ کیا کہ عدلیہ نے گذشتہ مارچ میں فائزہ کے خلاف ایک حکم جاری کیا تھا۔
اسے 15 ماہ قید اور انٹرنیٹ پر کسی بھی سرگرمی کو روکنے کے لیے مزید دو سال کی سزا سنائی تھی۔علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو 1979 میں انقلاب کی فتح کے بعد اس دور کی سب سے نمایاں ایرانی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے اور انہوں نے 1989 سے 1997 کے درمیان ملک کی صدارت سنبھالی۔ وہ ایک اعتدال پسند رہ نما تھے اور انہوں نے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ پڑوسی ملکوں کیساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔
ستمبر کے وسط سے ایران میں امینی کی موت کے پس منظر کے خلاف احتجاجی تحریک جاری ہے۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس کے حملوں میں درجنوں افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے۔ حکام نے مظاہروں کے سلسلے میں سینکڑوں افراد کی گرفتاری کا بھی اعلان کیا۔