اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) موجودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے زیر اثر ایوان صدر کے درمیان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدارتی خطاب کا معاملہ تنازع کی شکل اختیار کرگیا ہے۔روزنامہ جنگ میں صالح ظافر کی خبر کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اشارہ دیا ہے کہ وہ 3 اکتوبر یا اس کے بعد آنے والے دن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں گے تاہم ایوان
صدر کا کہنا ہے کہ انہیں مشترکہ اجلاس طلب کئے جانے کے حوالے سے جمعے کی رات تک حکومت کی جانب سے کوئی درخواست یا سمری موصول نہیں ہوئی ہے۔حکومت پہلے بھی 14 اگست کو قومی اسمبلی اجلاس صدارتی خطاب کے بغیر ہی کرچکی ہے۔آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال نئے پارلیمانی سال میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ہونا لازمی ہوتا ہے تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔حیران کن طور پر کسی بھی فوجی آمر بشمول جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق نے آئین کے اس قانون کا احترام نہیں کیا جس میں ہر پارلیمانی سال کے آغاز میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جانا لازمی ہوتا ہے۔پارلیمانی ذرائع نے بتایاکہ حکومت نے14 اگست کی صبح بلائے گئے اجلاس میں بھی اس قانون کو نظر انداز کیا اور مشترکہ اجلاس نہیں بلایا گیا۔ اسی طرح صدر مملکت جن کی وابستگی اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے ہے انہیں حکومت نے کسی بھی بڑے فنکشن میں نہیں بلایا ہے۔اسی طرح اس سلسلے میں صدر عارف علوی نے بھی خود سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ذرائع کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے یہ یقین دہانی نہیں کروائی کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حکومت کی طرف سے دیئے گئے اعلامیہ کو پڑھیں گے۔
ان کی پارٹی موجودہ حکومت کی حریف ترین جماعت ہے اسی لئے یہ مشکل ترین کام ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کو بیان کریں گے اور اس دوران وہ سابق وزیراعظم عمران خان کا ذکر خیر نہیں کریں گے۔ وہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔جنرل ضیا کے دور میں انہوں نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مجلس شوریٰ کا نظریہ متعارف کروایا تھا جس میں دونوں ایوان شامل ہوتے تھے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے اپنے پانچ سالہ دور میں سے چار برس تک صدارتی خطاب نہیں کیا تھا تہم ایک مرتبہ جب انہوں نے خطاب کیا تو ان کا رویہ جارحانہ تھا اور انہوں اپوزیشن کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔