اسلام آباد(آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پرنیب کو دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ کیس کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی،مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت میں پیش ہوئے،مریم نواز کے
وکیل امجد پرویز نے دلائل دیئے کہ میں نے عدالتی معاونت کیلئے پیپر بکس تیار کی ہیں، نیب کے شواہد میں واحد چیز رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی میں نے رابرٹ ریڈلے سے متعلق ہی دو صفحات تیار کئے ہیں، ایک ماہر کی رائے کو اس کیس میں بنیادی شواہد کے طور پر لیا گیا جبکہ کسی ماہر کی رائے کبھی بھی بنیادی شہادت نہیں ہوتی۔ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے خود تسلیم کرتا ہے کہ کیلبری فونٹ ٹرسٹ ڈیڈ سے ڈیڑھ سال پہلے آ چکا تھا اور ایکسپرٹ نے کہا وہ اپریل 2005 میں خود یہ کیلبری فونٹ استعمال کر چکے ہیں جبکہ انہوں نے مانا وہ کمپیوٹر ایکسپرٹ نہیں ہیں،جس پرجسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو یہ کیس ہی ختم ہوگیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ نہیں تو پھر اس کے شواہد ہی ختم ہو جاتے ہیں،جو بھی فونٹ بنتا ہے وہ کہیں رجسٹر ہو تو ہوتا ہو گا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے نتیجے میں مریم نواز کو کیا فائدہ ہوا پراسیکیوشن یہ بتا دے، رابرٹ ریڈلے کی نام نہاد رپورٹ کی بنیاد پر ٹرسٹ ڈیڈ کو غلط قرار دیا گیا۔جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کے اثاثوں کی مالیت کا تعین بھی موجود نہیں؟امجد پرویز نے جواب دیا کہ نہیں اور دونوں ملزمان کے اثاثوں کی مالیت کا تعین پراسیکیوشن کا کام ہے۔جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی؟جس پرایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے کہا جرم 1993 میں ہوا تھا
اور مریم نواز کو 2006 میں ایک دستاویز سائن کرنے پر کہا گیا کہ جرم میں معاونت کی، یہ بات آج تک سمجھ نہیں آتی کہ اتنے سال بعد معاونت کیسے ہوئی۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ نیب نے دلائل کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔