اسلام آباد(آن لائن) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نیصحافیوں کو ملک بھر میں ہراساں کرنے کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں،یہ عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔ عدالت تنقید سے کبھی کسی کو نہیں روکے گی
مگر تنقید سچ پر مبنی ہو ۔جمعہ کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں صحافیوں کو ملک بھر میں ہراساں کرنے کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تنقید سے کبھی کسی کو نہیں روکے گی مگر تنقید سچ پر مبنی ہو میرے خلاف کمپین چل رہی ہے اس سے اس عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا سچ نے ایک دن باہر ہی آنا ہے پی ایف یو جے قیادت وکیل شاہ خاور کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ،عدالت نے کہا کہ پھر سے واضح کردو کہ اس عدالت کے خلاف جتنا کمپین کرنا ہے کرے کوئی فرق نہیں پڑتاہر قسم کی کمپین چلائی گئی اور چلاتے ہیں مگر یہ عدالت متاثر نہیں ہوتی صحافیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو کررہے ہیں کیا وہ درست ہیں؟ہر عدالت کی رپیوٹ ان کے فیصلوں اور کنڈکٹ سے ہوتی ہے کسی جج کا کچھ چھپتا نہیں کورٹ رپورٹرز بہتر جانتے ہیں جس نے جو کرنا ہے کرے فرق کوئی نہیں پڑتا مگر سوچیں کہ آپ کیا کررہے ہیں۔ یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں، کاشف عباسی یہاں موجود ہیں انہوں نے اس عدالت پر بھرپور تنقید کی آپ اس عدالت پر جتنا تنقید کرے اس عدالت کو خوشی ہوتی ہے بڑے صحافی مجھے بتا رہے ہیں
جس چیز کا مجھے نہیں پتہ مگر وہ قوم کو بتا رہے ہیں وقت اور تاریخ بتائے گی کہ یہ عدالت کس طرف ہے نہ یہ عدالت پہلے کسی چیز سے متاثر ہوئی اور نہ اب ہوگی میرے خیال میں یہ واحد عدالت ہے جس پر ہر قسم کی کمپین چلائی گئی تنقید اس عدالت کی طاقت ہے شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں پر کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج کئے گئے درخواست گزار کو کراچی میں گرفتار کرلیا گیا
اور پھر عدالت نے ڈسچارج کیا ،جس پر عدالت نے کہا کہ اس عدالت کو تین سالوں سے لگ رہا ہے کہ صحافی ہی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے آج تک ہم آئین کو مکمل طور پر بحال نہ کرسکیں اگر اس ملک میں آئین مکمل طور پر بحال ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوگا اس موقع پر پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ آپ نے فیصلہ دیا تھا کہ صحافیوں کے حوالے سے
ایف آئی اے اور پی ایف یو جے معاملات دیکھیں آپکا وہی فیصلہ بیچ آگیا کہ اب دوسری جگہ پر مقدمات ہورہے ہیں، اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے عدالت کو بتایا کہ ایک صحافی کو پولیس نے گرفتار کیا پانچ دن تشدد کرکے پاس رکھاپولیس نے پھر صحافی کو ایف آئی اے کو دیا پھر پانچ دن وہاں رہایہ حکومت ہی ہے جو یہ سب کررہی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ
اسی وجہ سے آپ اس عدالت کو نہیں چھوڑ رہے ہیں جس پر صدر پی ایف ہو جے نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں کو اٹھایا جارہا ہے ، دبایا جارہا ہے، اس معاملے کو روکے اس موقع پر عدالت نے کہا کہ اقوام متحدہ سے رپٹ آیا اور وہ سارے صحافیوں کے حوالے سے کیسسز سے متعلق ہیجن کیسسز کے حوالے دئیے گئے اتفاق سے وہ سارے کیسسز اس عدالت میں زیر سماعت ہیں اس خط میں مطیع اللہ جان،
اسد طور، ابصار عالم، گل بخاری و دیگر کے نام تھے اس موقع پر پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل لالہ اسد پٹھان نے عدالت کو بتایا کہ صابر شاکر اور ارشد شریف بھی ایگزائل میں اس ملک سے چلے گئے جس پر عدالت نے کہا کہ اس خط میں یہ نام ہے کیونکہ وہ 2021 میں آیا تھا اب نیا کوئی خط آئے تو اس میں شاید یہ نام ہواس معاملے پر جرنلسٹس ایسوسی ایشن، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا
اقوام متحدہ ہمیں یہ سب کیوں بتا رہا ہے کیا کوئی چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں کا پتہ نہیں ہے تین سال کہتے رہے یہ عدالت کسی کا دوست ہے اب دوستی تبدیل ہوگئی تو کہتے ہیں کسی اور کا دوست ہے آپ کو عدالت ہی نہیں آنا چاہیے وفاقی حکومت کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے اس موقع پر عدالت نے کہا لکھ کر دے کہ یہ ریاست نہیں رہی ختم ہو گئی ہے
اقوام متحدہ کا رپٹ وار والا خط ان سب کے لیے بہت ہے کیا موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ رپٹ وار کا ایک اور خط ہمارے پاس ائے آئین کی بحالی کے لئے فریڈم آف سپیچ پر قدغن نہیں ہونی چاہیے اس عدالت کے حوالے سے ہمیشہ غلط کمپئین چلائی گئی ہیں۔ اس موقع پر اینکر پرسن کاشف عباسی نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے حوالے اچھی باتیں بھی ہوتی رہی، آپ کے آنے کا ہی انتظار تھا
اس موقع پر پی ایف یو جے کے صدر نے عدالت کو بتایا کہ پانچ تاریخ تک ان کو منع کریں کہ کسی کو گرفتار نہ کرے اس موقع پر عدالت نے کہا کہ عدالت ایسی کوئی بلنکٹ آرڈر جاری نہیں کرسکتی اس موقع پر پی ایف یو جے کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ وزارتِ داخلہ سے صحافیوں سے
متعلق مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار صوبائی حکومتوں تک تو نہیں ہیں جس پر شاہ خاور نے عدالت سے استدعا کی یہ عدالت وفاقی وزارت داخلہ سے ریکارڈ منگوا لیں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ وہ لسٹ بتا ئیں کہ کونسے صحافی ہیں جن کے ساتھ ایسے واقعات ہورہے ہیں ایگزیکٹو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکام ہوگئے صحافیوں کو ملک بھر میں گرفتار اور ہراساں کیا جارہا ہے۔۔