کراچی (این این آئی) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ فضا علی نے سیلاب زدگان کی حالتِ زار دیکھ کر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔فضا علی نے انسٹاگرام پر ایک جذباتی پیغام شیئر کیا ہے۔انہوں نے اس ویڈیو پیغام میں کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں پہلے ہی بہت محرومیاں ہیں اور رہی سہی کسر ہر سال کا سیلاب نکال دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بہت سے
لوگوں کی زندگی ایسی صورتِ حال میں لقمہ اجل بھی بن جاتی ہے اور مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ابھی دو مہینے پہلے میں اپنی بیٹی کے ساتھ کالام گئی ہوئی تھی اور وہاں میں زندگی میں پہلی بار گئی تھی، وہاں سیرو تفریح کرنے کیلئے بہت ساری خوبصورت جگہیں تھیں، میرا کالام کا وزٹ اتنا اچھا رہا کہ میرا وہاں سے واپس آنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔فضاء علی نے کہا کہ وہاں اس وقت وہ اتنی خوبصورتی دیکھنے کے بعد اب سیلاب سے متاثرہ جو صورتِ حال سوشل میڈیا پر دیکھ رہی ہیں وہ ان سے دیکھی نہیں جارہی۔انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پانچ بھائی سیلاب ریلے میں پھنسے مدد کے لیے پکارتے رہے تو کوئی مدد کرنے نہیں پہنچا، لیکن پی ایس ایل کروانا ہو تو گراونڈ کو خشک کرنے کیلئے، سیاستدانوں کے جلسوں، اور مشہور شخصیات جیسے فنکاروں کے کنسرٹس کیلئے فورا ہیلی کاپٹرز آجاتے ہیں لیکن غریب کی مدد کرنے کوئی نہیں پہنچا۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا یہ عذاب صرف غریب پر ہی آتا ہے، غریب ہی تباہ ہوتا ہے، غریب ہی مرتے ہیں، غریب کا ہی نقصان ہوتا ہے وہی اپنی جانوں سے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امیر کو کیوں کچھ نہیں ہوتا، یہ اسلام آباد، لاہور، اور وہاں پر بنی ہوئی جو بڑی بڑی سوسائٹیز اور سیکٹرز ہیں ادھر پانی کیوں نہیں آتا، ان کا کچھ نقصان نہیں ہوتا، صرف غریب کا ہی گھر کیوں ڈوبتا ہے۔فضا علی نے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی یہ کیوں نہیں مانتا کہ
یہ سب کچھ حکمرانوں کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہورہا ہے ،کیوں کہ انہوں نے ڈیمز نہیں بنائے، قوم کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے پڑوسی ملک بھارت کو ہی دیکھ لیں ادھر کتنے ڈیمز بن گئے ہیں، جب پتہ ہے کہ اتنی بارشیں ہوتی ہیں
تو ڈیمز بنانے کا انتظام پہلے سے ہونا چاہیے۔فضا ء علی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو کالا باغ ڈیم ہے پتہ نہیں کتنے سالوں سے بس تعمیر ہی ہورہا ہے اس کا کام روک کے رکھا ہوا ہے،
ابھی وہ لوگ اپنے آپ کو پاکستانی کیسے کہلوا سکتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کالا باغ بنانے کے لیے ہماری لاش کے اوپر سے گزرنا پڑے گا۔