اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی لیک آڈیو کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت ترین کا محسن لغاری اور تیمور سلیم جھگڑا سے فون پر رابطہ کرنا اور مشورہ دینے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین نے محسن لغاری اور تیمور جھگڑا سے بات کی تو اس میں کیا غلط ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی رہنما شوکت ترین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فونک بات چیت منظر عام پر آئی ہے جس میں انہیں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے جس میں شوکت ترین کہتے ہیں کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان پر دباؤ پڑے، یہ ہم پر دہشت گردی کے مقدمات بنا رہے ہیں اور یہ بالکل اسپاٹ فری جارہے ہیں، یہ ہم نے نہیں ہونے دینا۔پیر کو وزیر خزانہ خیبر پختونخوا تیمور سلیم جھگڑا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ موجودہ حکمراں جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے فیٹف قوانین کی منظوری کی مخالفت کی۔اسد عمر نے کہا کہ جب ہم نے پاکستان کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچانے کے لیے قوانین تیار کیے تو ان حکمرانوں نے کہا کہ اس وقت تک منظور نہیں ہونے دیں گے جب تک ہمارے نیب مقدمات ختم نہیں کیے جاتے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایکٹ، آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی لازمی شرط تھی جس کی ان حکمرانوں نے مخالفت کی، انہوں نے کہا کہ یہ قانون اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف کو گروی رکھنے کے مترادف ہے،
انہوں نے اس ایکٹ کے خلاف ووٹ دیا جبکہ آج 4 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے اس ایکٹ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت یہ صرف سیاست کر رہے تھے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ تیمور سلیم جھگڑا نے وفاقی حکومت اور وزیر خزانہ کو خط لکھا ہے جس پر آج اتنا شور مچایا جارہا ہے،
جب پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کیلئے پی ٹی آئی سے مدد طلب کی تو ہم نے صرف 24 گھنٹے کے اندر ان کو مثبت جواب دیا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی بہتری کے لیے تعاون کرتے ہوئے کہا کہ اس تعاون کے لیے ہمارے چند نکات ہیں جن پر آپ کو عمل درآمد کرنا ہوگا، 2 ماہ گزر گئے اور تیمور جھگڑا کو ملاقات کا وقت نہیں دیا گیا،
جب یہ خط لکھا گیا تو پھر ملنے کا وقت دیا گیا۔اسد عمر نے کہا کہ شوکت ترین کی ایک فون کال سامنے آگئی ہے، اس وقت ملک میں کوئی قانون نہیں ہے، کھلے عام فون ٹیپنگ ہو رہی ہے، قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس کے علاوہ ایک پرانا کام بھی انہوں نے شروع کیا ہوا ہے جس میں یہ ترمیم، رد و بدل بھی کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو شوکت ترین کی آڈیو چل بھی رہی ہے
اس میں انہوں نے کیا کہا ہے کہ ملک میں اس وقت سیلاب کی صورتحال ہے، رات عمران خان، وزیر خزانہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے ساتھ مل کر متاثرین کیلئے امداد جمع کریں گے تاکہ امدادی کارروائیوں میں مزید تیزی لائی جائے۔انہوں نے کہاکہ یہ پس منظر اور تناظر تھا جس میں شوکت ترین نے وزیر خزانہ کے پی اور پنجاب کو کہا کہ وہ وفاقی حکومت کو کہیں کہ موجودہ سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف سے دوبارہ مذاکرات کرے،
آئی ایم ایف سے مطالبہ کرے کہ سیلاب سے متعلق امدادی کارروائیوں میں تیزی کے لیے صوبائی سرپلس واپسی سے متعلق رعایت فراہم کی جائے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شوکت ترین سابق وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، ان کو مشورہ دینے کا پورا حق پہنچتا ہے، اس میں کیا خرابی ہے، شوکت ترین کا محسن لغاری اور تیمور سلیم جھگڑا سے فون پر رابطہ کرنا اور مشورے دینے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ کیا کوئی ذی شعور شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ اچھا مشورہ نہیں ہے،
جب کورونا وائرس آیا تھا اس وقت کیا عمران خان نے خود آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کو فون کرکے مالی رعایتیں نہیں لی تھیں، کیا کورونا کے دوران عالمی سطح پر قرضوں میں رعایت اور نرمی کا پروگرام نہیں لایا گیا، اسی طرح سے آج پاکستان پر ایک ناگہانی قدرتی آفت آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف پوری دنیا سے مدد مانگ رہے ہیں، جب آپ بیرونی ممالک سے مدد مانگ رہے ہیں تو کیا آپ آئی ایم ایف سے یہ کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں رعایت دیں تاکہ ہم متاثرین کی بحالی کا کام کرسکیں،
اس مشورے کو ایسا بنادیا گیا جیسے پتا نہیں کیا کہہ دیا گیا ہے، طوفان کھڑا کردیا گیا۔اسد عمر نے کہا کہ مخالفین اس طرح کا ردعمل اس لیے دے رہے ہیں کہ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ 17 جولائی کے بعد وہ عمران خان کا سیاسی طور پر مقابلہ نہیں کرسکتے، جس سیاسی میدان میں مخالفین جاتے ہیں، انہیں شکست نظر آتی ہے، پنجاب اور کراچی میں مخالفین کو شکست ہوئی، آنے والے الیکشن میں بھی مخالفین کو شکست فاش ہوگی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہ بوکھلاہٹ کا شکار حکومت چاہتی ہے کہ کسی غیر سیاسی بنیاد پر عمران خان کو قابو کیا جائے، قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوچکی، مخالفین جتنا ان کو دبانے کی کوشش کریں گے، ان کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اصل چیز خط ہے، حقیقت صرف خط ہے، باقی سب کچھ رولا ہے، اس خط میں کیا کہیں لکھا گیا کہ ہم ڈیل سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہو یہ رہا ہے کہ پہلے ایک ٹوئٹ آئی جس میں کہا گیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا،
وہ جھوٹ ثابت ہوگیاکہا گیا کہ خط میں لکھا گیا کہ ہم ڈیل سے نکل جائیں گے، وہ بھی جھوٹ ثابت ہوگیا۔اسد عمر نے کہا کہ میں پوچھتا ہوں کہ تیمور جھگڑا کے لکھے گئے خط میں متنازع اور قابل اعتراض بات کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنی گفتگو کی تشریح تو خود شوکت ترین ہی کریں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کہا کہ یہ معاملہ ریاست کے خلاف ہے، اصل معاملہ تیمور جھگڑا کا خط ہے جس کی انہوں نے ذمے داری لی ہے۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اگر ان کو لگتا کہ اس میں کوئی غلط بات ہے تو وہ اس کی ذمیداری نہیں لیتے،
جو بات انہوں نے ملک و قوم کے مفاد میں بہتر سمجھی، وہ انہوں نے اس خط میں لکھی، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی جبکہ اب نئی بات یہ ہے کہ اب ملک میں سیلاب بھی آیا ہوا ہے۔پریس کانفرنس میں گزشتہ دنوں مفتاح اسمٰعیل کو لکھے گئے خط کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ خیبر پختونخوا نے کہا کہ میں نے خط 26 اگست کو لکھا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ فاٹا کے الحاق کے بعد وہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وعدے کیے گئے تھے، وعدہ کیا گیا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد فاٹا کی ترقی کے لیے دیا جائے گا۔
تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ماضی میں وزرائے خزانہ فاٹا کی ترقی کے لیے فنڈز جاری کرتے رہے ہیں، میں نے موجودہ وزیر اعظم سے پوری کابینہ کے سامنے یہ تمام باتیں رکھیں، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ یہ نکات اپنی بجٹ تقریر میں رکھیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ جب آئی ایم ایف معاہدے کا وقت آیا تو ہم نے کہا کہ اگر آپ سرپلس چاہتے ہیں تو ہمارے ساتھ بیٹھیں، 5 جولائی کو ملاقات کا وقت دیا گیا، اس سے قبل ملاقات کے لیے 50 روز تک وقت نہیں دیا گیا، کہا گیا کہ سیکریٹری خزانہ حج پر گئے ہوئے ہیں، پھر کہا گیا کہ ان کی کمر میں درد ہے،
پاکستان کے عوام، فاٹا کے لوگوں کے حقوق کی آواز اٹھانے پر ہماری حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت نے فاٹا پر پیسے لگائے، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے، عمران خان نے وہاں کی بہتری کے لیے پیسے خرچ کیے، عمران خان نے قبائلی اضلاع کا بجٹ 4 ارب سے 120 ارب روپے تک بڑھایا، انہوں نے ہر سال بجٹ بڑھایا، ہماری حکومت فاٹا کے بجٹ پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ میں نے خط خود لکھا ہے، میں اس کی ذمے داری لیتا ہوں، اس میں لکھا ہے کہ قبائلی اضلاع کے بجٹ کا ایشو حل کرنا چاہیے، این ایف سی اجلاس بلانا چاہیے جس میں یہ فیصلے کیے جائیں، ہمارا خسارہ پہلے سے ہے اور جب سیلاب ا?گیا ہے تو ہم سرپلس کیسے چھوڑ سکتے ہیں، خط میں جان بوجھ کر یہ نہیں لکھا گیا کہ ہم آئی ایم ایف سے کیے گئے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، خط اس لیے لکھا کہ کیوں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔