پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

نیب ترامیم، سپریم کورٹ نے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا

datetime 29  جولائی  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر

مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت سے کہا کہ حکومت اس کیس میں سینئر وکیل کی خدمات لینا چاہتی ہے اور میں عدالت کی معاونت کرتا رہوں گا۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہم درخواست گزار کو سن رہے ہیں کوئی حکم جاری نہیں کریں گے، جس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کر دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ رات سے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پڑھ رہا ہوں، اپنی معروضات تفصیل سے پیش کریں کہ ترامیم آئین سے کیسے متصادم ہیں اور عوام کے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، ان کی نشان دہی کریں۔سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ بھی بتائیں کون سی ترامیم ایسی ہیں جن سے نیب قانون اور مقدمات متاثر ہو رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی نیب ترامیم کے خلاف درخواست زیر سماعت ہے، کیا مناسب نہیں ہوگا پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم کا اطلاق ایک ہائی کورٹ نہیں پورے ملک پر ہوگا۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد عوامی عہدیدار احتساب سے بالاتر ہوگئے ہیں، درخواستیں شاید مختلف ہائی کورٹس میں بھی آ جائیں، ابھی تک کسی اور ہائی کورٹ میں درخواست نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر گورننس اور جمہوریت نہیں چل سکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بے نامی دار کے مسئلے پر بھی وضاحت کریں، اپنی گزارشات کا مختصر چارٹ بنالیں تو بہتر رہے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا، آرٹیکل 199 کی درخواست میں ہائی کورٹ بنیادی حقوق سے آگے

نہیں جا سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بہتر رہے گا کہ معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزڈم پہلے آجائے، اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپ کی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی۔پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام اور آئین دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے، عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آئین کے بنیادی جزو ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر

سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں، آپ کے مطابق چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن یہ ہے کہ آپ غیر قانونی کام کریں اور اس کا کسی کو فائدہ پہنچائیں، کرپشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے، اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اس کی مخالفت کرے وہ قومی اثاثے کی مخالفت ہوگی۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سابق جج مظہر عالم کہتے رہے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ڈیم کی ضرورت ہے، احتساب گورننس اور حکومت چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے لکھا ہے ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہیں، کئی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے برعکس ہیں تو آپ بتائیں کہ کون سی ترمیم آئین کے برخلاف ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا کام یہ نہیں کہ آپ کو درخواست مزید سخت

بنانے کا کہیں، آپ کا کام ہے ہمیں بتانا کہ کون سی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کوئی ترمیم اگر مخصوص ملزمان کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہے تو وہ بتائیں، کیا آپ چاہتے ہیں عدالت پارلیمنٹ کو قانون میں بہتری کا کہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ جو ترامیم آئین سے متصادم ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ دلائل قابل قبول ہیں کہ کوئی قانون پارلیمانی

جمہوریت کے خلاف ہونے پر کالعدم کردیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے لکھا ہے ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے برعکس کے ہیں تو آپ بتائیں کہ کون سی ترمیم آئین کے برخلاف ہے، وکیل نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کے خلاف آئینی ترمیم بھی ممکن نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے، پارلیمان کا اختیار ہے کہ مکمل آئین بھی تبدیل کر سکتی ہے جس پر

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ترامیم کیس میں بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپ کی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی، کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر سکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی آئین کے تحت بنیادی حق ہے، کیا مفت تعلیم کا حق آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، پارلیمان اگر سزائے موت ختم

کر دے تو کیا وہ چیلنج نہیں ہو سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سزائے موت پارلیمان ختم کر دے تو ہم کیسے بحال کر سکیں گے جس پر وکیل نے کہا کہ سزائے موت ختم ہوئی تو پہلے شریعت کورٹ میں چیلنج ہوگی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا انحصار اسلام پر ہے تو نیب ترامیم شریعت کورٹ میں کیوں نہیں چیلنج کرتے، وکیل نے کہا کہ جن اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین میں درج ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ

کی آزادی اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں توازن برقرار رہ سکے، آئین کے آرٹیکل 4 پر کبھی تفصیل سے بحث نہیں ہوئی لیکن یہ بہت اہم ہے، بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں لیکن آرٹیکل 4 نہیں۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ججوں نے پرانے نیب قانون اور نئی ترامیم کے موازنے کے لیے چارٹ بنائے ہوئے ہیں، خواجہ صاحب آپ کے ہاتھوں میں ایسا کوئی چارٹ نظر نہیں آ رہا۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ یہ نیب

قانون کب منظور ہوا، خواجہ حارث نے کہا کہ تاریخ میں آپ کو دے دیتا ہوں، کچھ ترامیم ایسی ہے جو بہت سنگین ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ان ترامیم کی نشاندہی کر دیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی درخواست کی استدعا میں ایسی تمام ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا کہا گیا ہے، نئی نیب ترامیم کا بھی 1985 سے نفاذ کردیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں اس ترمیم سے تمام زیر التوا مقدمات اور انکوائریز

پر فرق پڑے گ تو جن کو سزا ہو چکی ہے ان پر ترمیم کا کیا فرق پڑے گا۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جب آپ ترامیم سے مچھ اڑانا ہے تو مچھ محفوظ بھی کرنا ہوتا ہے، یہ ترمیم بھی شامل ہے جو پلی بارگین کریں وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہے کہ پلی بارگین کرنے والے کو وعدہ معاف گواہ بنایا جائے، آپ کہ رہے ہیں کئی نیب ترامیم سے جرم کو ثابت کرنا مشکل بنا دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا

کہ پارلیمنٹ کے معاملے پر عدالتی اختیار تب شروع ہوگا جب وہ غیر آئینی ہو، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ترامیم کے تحت ریلیف کو درخواست پر فیصلے سے مشروط کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ریلیف کے حوالے سے کوئی بہت ایمرجنسی ہے اس حوالے سے تو بتائیں، یہ بھی بتائیں کیا بہت زیادہ زیر التوا مقدمات ترامیم سے متاثر ہوں گے، خواجہ حارث نے کہا کہ حکم امتناع نہیں مانگ رہا لیکن ترامیم کے تحت ملنے والا ریلیف مشروط کیا

جائے۔خواجہ حارث نے کہا کہ میوچل لیگل اسسٹنٹس کو نیب قانون کی دسترس سے باہر کر دیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے، ہم اس وقت جائزہ لے سکتے ہیں جب آئین سے متصادم معاملہ ہو۔پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے تک نیب قوانین پر عمل درآمد روکا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب عدالتیں کام کر رہی ہیں، ہم کیسے تالہ لگا سکتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کی طرح دیگر مقدمات ہیں اور کیا ماضی سے قانون کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ترامیم کے تحت ریلیف کو مشروط کرنے کی درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کر دیا اور چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدالت کو آئین کے تحت اپنا کام کرنا ہے، اپنے حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جمعہ پرامن ہوتا ہے، اس لیے آئندہ جمعے کو دوبارہ سماعت کریں گے، عام دنوں میں تو شام کو بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس عمر عطابندیال کے درمیان مکالمہ ہوا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ہم رات 9 بجے تک بیٹھتے ہیں، کبھی آپ کو بھی زحمت دیں گے۔سپریم کورٹ نے وفاق کو نوٹس جاری کیا اور سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کردی۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…