لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ عبوری وزیر اعلیٰ ،نگران وزیر اعلیٰ اورٹرسٹی وزیر اعلیٰ تو سنا تھا لیکن جوڈیشل وزیر اعلیٰ پہلی دفعہ دیکھا ہے ، جوڈیشل آر ڈر سے آئین و قانون کے تحت قائم کردہ صوبائی حکومت کوگرایا جاتا ہے اورجوڈیشل آرڈر سے ہی ایک نئی حکومت کو صوبے انسٹال کیا جاتا ہے ،
ہماری سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی ضد نہیں بلکہ استدعا تھی ، سوسائٹی پہلے ہی پولرائز ہے ، اب یہ سننے کو مل رہا ہے کہ عدلیہ میں گروپنگ ہے ،،یہ سنگین آئینی قانونی نقطوں پر کیس تھا کیا امر معنی تھا کیوں نہیں فل کورٹ بٹھایا گیا ۔ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ پنجاب کے اندر مارچ سے آئینی بحران پیدا کیا گیا اور دو سیاسی جماعتوںنے اس آئینی بحران کو مزید سنگین کرنے میں اپنا کردار ادا کیا،وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے جو اجلاس بلایا گیا اسے نمبرز پورے نہ ہونے کی وجہ سے تین بار ملتوی کیا گیا ،جب اجلاس ہوا تو اس دن حکومتی بنچوںنے ڈپٹی سپیکر پر قاتلانہ حملہ کیا، ایوان میں جھگڑا کیا گیا ۔ تین بار اجلاس ملتوی کیا گیا ، ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیاگیا ،گورنر نے حلف لینے ے انکار کیا تو کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ، جب گورنر کو برطرف کیا گیا اور گورنر نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تو بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا،نئی گورنر کی تعیناتی کو تاخیر کا شکا کیا گیا اور صدر مملکت نے غیر آئینی طو رپر گورنر کی تعیناتی روکی لیکن اس پر بھی کوئی نوٹس نہیں لیاگیا ۔ انہوںنے کہا کہ جب سپریم کورٹ آئینی درخواست سن رہی تھی لیکن پنجاب کے حوالے سے استدعا نہیں سنی گئی تھی اور کہا گیا لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کریں ۔ہم نے انصاف کا دوہرا معیار سنا تھا لیکن دیکھنے میں پہلی بار آیا ہے ۔197 ووٹ ہیں لیکن آپ کہیں نہیں آپ کے نہیں ہیںآپ کے تمہارے 179ووٹ ہیں جس کے 172ووٹ ہے آپ انہیں کہیں تمہارے ووٹ پورے ہیں تم 186ووٹ لے کر آئے ہو ، یہ انصاف کا کیا معیار ہے ،یہ جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے ۔
انہوںنے کہا کہ عبوری وزیر اعلیٰ ،نگران وزیر اعلیٰ اورٹرسٹی وزیر اعلیٰ تو سنا تھا لیکن جوڈیشل وزیر اعلیٰ پہلی دفعہ دیکھا ہے ، جوڈیشل آر ڈر سے آئین و قانون کے تحت قائم کردہ صوبائی حکومت کوگرایا جاتا ہے اورجوڈیشل آرڈر سے ہی ایک نئی حکومت کو صوبے میں انسٹال کیا جاتا ہے ، انصاف کیس نے فیس نہیں دیکھتا۔ انہوںنے کہا کہ عمران خان بطور سربراہ کہتے ہیں کہ آپ نے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے ہیں
لیکن وہ ووٹ گنتی میں شمار نہیں کئے جاتے اور جب چوہدری شجاعت بطور پارٹی سربراہ اپنی جماعت کو کہتے ہیں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے ہیں تو وہ دوسری طرف اضافی طور پر ڈلوا دئیے جاتے ہیں،اگر مان لیا جائے پارٹی سربراہ کی ہدایت مقدم نہیں ہے تو پھر ووٹ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی یا پارلیمانی لیڈر نے کرنا ہے تو وہ پچیس اراکین جن کو ڈی سیٹ کیا گیا تھاکیا ان کو بحال تصور کیا جائے گا،
کیونکہ اس کیس میں کوئی پارلیمانی ڈائریکشن نہیںہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی ضد نہیں بلکہ استدعا تھی ، سوسائٹی پہلے ہی پولرائز ہے اور کسی معاملے پر یکجا نہیں ہوتے ، اب یہ سننے کو مل رہا ہے کہ عدلیہ میں گروپنگ ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر اور چھ سابق صدورنے بھی استدعا کی کہ فل کورٹ بنایا جائے ۔
انہو ںنے کہا کہ جب ماضی میں اس طرز کا فیصلہ آیا تو اس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن مانی جانی ہے ۔ اس بنچ میں وہ جج صاحبان موجود تھے جب نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹایاگیا اور کہا گیا کہ پارٹی صدر کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں،ماضی کے فیصلے کو اب غلطی قرار دیا جائے تو اس پر لوگ سوال اٹھاتے ہیں
،یہ سنگین آئینی قانونی نقطوں پر کیس تھا کیا امر معنی تھا کیوں نہیں فل کورٹ بٹھایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عدالتوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے، عدالتی فیصلوں کو تسلیم کیا ہے ۔نواز شریف کو تو سزا دے دیدی جاتی ہے لیکن عمران خان جس کی آف شور کمپنی ہے اسے کہا جاتا ہے کہ آپ مالک نہیں بینیفشری ہیں،علیمہ باجی کو جرمانہ کیا جاتا ہے اور مریم نواز کو موت کی چکی میں ڈالا جاتا ہے ۔
لوگ سوال اٹھا رہے ہیں اورپوچھ رہے ہیں کہ اتنا دوہرا معیار کیوں ہے جوپہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ،ہماری انصاف کے حصول کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔انہوںنے کہا کہ ہم ہم نے 2013سے 2018ء تک حکومت کی تو ہمیں آرام سے حکومت نہیں کرنے دی گئی ، کوئی نہ کوئی آرڈر آ جاتا تھا ، عمران خان کے خلاف کیوںنہیں آتاتھا۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ بیلنس کرنا ہے
،آپ نے آئین شکنی کی ہے آپ کے خلاف فیصلہ آیا ہے تو ہم نے آئین شکنی نہیں کی لیکن بیلنس کرنا ہے ، یہ انصاف نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے کسی سے زیادتی اورناجائز مقدمات قائم نہیں ،ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، اگر مسلم لیگ (ن) اور اتحادی ڈٹ کر کھڑے نہ ہوتے تو عدالتی بائیکاٹ ممکن نہ ہوتا، حکومت کے تمام اتحادیوںنے بائیکاٹ کیا اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ فریق کے بائیکاٹ کے باوجود فیصلہ سنایا گیا
، ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ۔انہوںنے کہاکہ مریم نواز پارٹی کا فخر ہیں ان سے پارٹی کو حوصلہ ملتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم نے عمران خان کا بوجھ اٹھا کر ریاست کو بچایا اس کے لئے ہمت چاہیے تھی وہ ہم نے کی ہے ۔ ہمارا بیانیہ ملک و قوم کی ترقی کا بیانیہ ہے
، قانون و انصاف کو ٹھیک کرنے کا بیانیہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھی یہ اطلاع ملی ہے کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما چوہدری فواد چوہدری نے رابطہ کیا ہے بلکہ دو مرتبہ رابط کیا ہے اور کہا ہے کہ ہاتھ ہلکا رکھیں سیاسی ٹمپریچر کو نیچے لائیں ، شاید وہ دوبارہ پارٹی تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔