اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)’میں جب کلاس سیون میں تھی تو میری لکھائی بہت خراب ہوتی تھی۔ ہر مرتبہ ڈانٹ پڑتی۔ ایک انگریزی کی ٹیچر آئیں جن کے پاس جو بھی لکھ کر لے جاتی، وہ کہتیں ’واہ واہ! کیا اچھا لکھا ہے۔‘‘بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا یہ سبق کراچی کی ٹیچر عروسہ عمران نے اپنی ان ہی ’میڈم‘ سے سیکھا۔بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے یہ
سبق سیکھا کہ کبھی بھی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے اور یہ کبھی نہیں کہنا چاہیے کہ آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اس بات کو میں نے باقی زندگی کے لیے پلو سے باندھ لیا۔‘بچوں کی تربیت کے لیے خود کو وقف کرنے پر عروسہ کو اساتذہ کے ایک عالمی مقابلے ’کیمبرج ڈیڈیکیٹڈ ٹیچر ایوارڈز 2022‘ میں اس خطے کی بہترین ٹیچر قرار دیا گیا ہے۔کیمبرج ٹیچر ایوارڈ ملنے کی وجہ میں لکھا گیا ہے کہ وہ جماعت میں باقی بچوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے بچے کو بھی تعلیم دیتی ہیں جسے پٹھوں کی ایک نایاب بیماری ہے جس سے اس بچے کے لیے بیٹھنا، چلنا اور چیزیں پکڑنا مشکل ہے۔ مگر تمام سرگرمیوں میں عروسہ کی حوصلہ افزائی کی بدولت اب یہ بچہ خوشی خوشی سکول آتا ہے اور سیکھنے میں اس کی دلچسپی کی وجہ سے اس کے والدین انتہائی خوش ہیں۔عروسہ نے 2017 سے بیکن ہاؤس سکول سسٹم میں کراچی کی ایک برانچ میں بطور اسسٹنٹ ٹیچر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور ایک ماہ میں ہی انھیں لیڈ ٹیچر بنا دیا گیا۔
اس وقت وہ پری نرسری کلاس دیکھتی ہیں جس میں 24 بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی بی ایس سی کا نتیجہ نہیں آیا تھا کہ میری شادی ہو گئی جس کے بعد دو بیٹے ہوئے۔ جب ان کا سکول میں داخلہ کروایا تو اسی کے ساتھ میں نے تدریس کا انتخاب کیا۔’میں نے سوچا کہ میں کچھ کروں مجھے آگے پڑھنا تھا جو میں شادی کی وجہ سے جاری نہیں رکھ پائی۔
میں نے تعلیم آگے بڑھانے کے لیے ٹیچنگ کے پروفیشن کا انتخاب کیا۔‘عروسہ ایک ایسے بچے کو بھی پڑھاتی ہیں جو پٹھوں کی ایک نایاب بیماری میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ بیٹھنے، چلنے یا ہاتھ میں چیزیں پکڑنے سے قاصر تھا۔ لیکن ان کی کوششوں سے اب یہ بچہ کچھ قدر بولنے اور کھیلنے کے قابل بن گیا ہے۔
ان کے مطابق جب یہ بچہ آیا تھا تو وہ بول نہیں پاتا تھا، لکھ نہیں پاتا تھا، چلنے اور کچھ پکڑنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ انھوں نے اس پر توجہ دی اور ہمت افزائی بھی کی۔وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے اس کے گرد ایسا ماحول بنایا اور اس کی بھرپور مدد کی آؤٹ ڈور اور انڈور سرگرمیاں۔
پھر چاہے اسمبلی میں پریزنٹیشن، میوزیک کلاس ہو، ورزش ہو، لائبریری ہو، میں نے اس کی ہمت افزائی کی اور اس کو ایسا محسوس کروایا کہ وہ مختلف نہیں ہے، وہ ہمارے جیسا ہی ہے۔‘’اس کی وجہ سے اب وہ اپنے جملے بول پاتا ہے۔ میں اگر ایسی سرگرمیاں کروا رہی ہوں جس میں بچے زمین پر بیٹھے ہیں تو میں اس بچے کو گود میں لے کر نیچے بیٹھتی تھی۔‘
عروسہ کی کاوشوں سے اس بچے نے سپورٹس فیسٹیول میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ’مجھے بہت تجسس ہو رہا تھا میں نے اپنی ہیڈ کو بھی جا کر بتایا کہ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں تاکہ یہ بچہ بھی اس میں شامل ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ خود کو تنہا محسوس کرے۔
’میں نے یوٹیوب پر سرچ کی اور مختلف گیمز تلاش کیں کہ کس طرح سے اس کو بھی شامل کر سکتی ہوں۔ اس کے بعد اس کو دوسری پوزیشن کا ایوارڈ ملا۔‘کیمبرج ڈیڈیکیٹیڈ ٹیچر ایوارڈز ایک عالمی مقابلہ ہے جس کے ذریعے دنیا بھر میں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان کے تجربوں اور صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ایوارڈ کی نامزدگیوں کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اساتذہ سٹوڈنٹس کو غیر معمولی بنانے کے لیے کس حد تک اور اس سے آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔سال 2022 کے کیمبرج ڈیڈیکیٹڈ ٹیچر ایوارڈز میں دنیا بھر کے 113 ممالک کے 7000 امیدوار شامل تھے جن میں سے چھ علاقائی فاتحین کو ججوں کے پینل نے منتخب کیا، جنھوں نے فائنل راؤنڈ میں جگہ بنائی۔
اس میں بیکن ہاؤس کی عروسہ عمران بھی شامل تھیں جو پاکستان کے لیے علاقائی فاتح ہیں۔عروسہ کے مطابق انھیں ان کے سکول کی ہیڈ نے نامزد کیا تاہم اساتذہ، سٹوڈنٹس بھی کسی امیدوار کو نامزد کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ویب سائٹ پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ عروسہ کو اس انعام کے لیے اس لیے نامزد کیا گیا کیونکہ انھوں نے خود کو اس بچے کی حوصلہ افزائی اور صلاحیتیں بڑھانے کی خاطر وقف کیا۔