ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قرض پر رہنے والا ملک کب تک زندہ رہے گا،شہباز شریف

datetime 5  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہوگا ، معیشت ،صحت ،تعلیم ، زراعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ،گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ہم ان شعبوں میں بہت آگے

بڑھ سکتے ہیں،کوئی بھی حکومت آئے یا جائے ان ایریاز کو ہاتھ نہ لگا سکے،قرض پر رہنے والا ملک کب تک زندہ رہے گا، ہمیں تو اس وقت دنیا میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا، بنگلہ دیش کو بوجھ کہا گیا لیکن آج اس کی برآمدات 40ارب ڈالر اور ہم 27سے28ارب ڈالر پر ہیں، ایک حکومت گئی دوسری حکومت آئی تو سب کچھ سیاست کی نظر کر دیا گیا ،اس سے تمام ادارے تباہ ہوئے ،اس طرح تو تباہی ہمارا مقدر ہے ، اگر ہم نے اپنی تقدیر کو بدلنا ہے تو ہمیں اقبال کے وژن کی پیروی کرنا ہو گی ،ماربل سے پتھر سے قومیں نہیںبنتیں ، اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں تو ماربل کے ان گنت محلات ہیںلیکن خلق خداہے ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ،دنیا میں پیٹرولیم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں لیکن مارچ میں جب تحریک عدم اعتماد چل رہی تھی تو یہاں پر قیمتیں کم کر دی گئیں، آپ نے ساڑھے تین سال میں تو قوم کو ایک دھیلے کا ریلیف نہیں دیا ،ہم نے دل پر پتھر رکھ کر قیمتیں بڑھائیں،پوری کوشش کروں گاکہ غریب آدمی پر جو بوجھ پڑ رہا ہے ان کو ریلیف بھی دیں ،مجھے توآئے ہوئے ڈیڑھ سے پونے دو مہینے ہوئے ہیں، ساڑھے تین سال جو ہوا اور ملک یہاں پہنچا کیا اس کا بھی حساب لینا ہے یا مجھ سے ڈیڑھ مہینے کا حساب لینا ہے ، میںتواپنا حساب دینے کیلئے تیار ہوں،لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ برداشت نہیںکروں گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں مخیر شخصیات کی جانب سے تعمیر کئے گئے انڈس ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج میرے لئے انتہائی خوشی اور عزت اور مسرت کا موقع ہے کہ مجھے ایک ایسے ٹرسٹ ہسپتال کے افتتاح کیلئے دعوت دی گئی ہے جس کو ایسے لوگوںنے بنایا ہے جو بڑے عظیم پاکستانی اورخداترس ہیں،خدا نے انہیں بڑی نعمتوں سے نواز ا ہے مگر وہ جو رزق حلال

کماتے ہیں اس میں سے قوم کی ترقی وخوشحالی میں پورا حصہ بٹاتے ہیں ،جو دولت انہوںنے شبانہ روز محنت کی بدولت کمائی ہے اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کرتے ہیںجو سفید پوش اور مفلوک الحال ہیں ۔شہباز شریف نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 2013 میں میری ملاقات میاں احسان اور اقبال قرشی صاحب سے ہوئی تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی بنانی ہے یہ انسانی فلاح کا کام ہے اس میں کچھ مسائل ہیں انہیں حل

کروادیں۔انہوں نے مجھے ہسپتال بنانے کا بھی کہا تھا لیکن اس وقت میں نے ان سے طیب اردوان ہسپتال کو چلانے کی درخواست کی ، طیب اردوان 2010 میں سیلاب کے بعد ترک حکومت کے اشتراک سے طیب اردوان ہسپتال بنایا گیا تھا،یہ 60بیڈ کا ہسپتال تھا لیکن اسٹیٹ آف دی آرٹ تھا اور پورے پاکستان میں شاید آغا خان اس کا ہم پلہ ہوگا یاشوکت خانم یا دیگر کچھ ہسپتال ہوں گے ۔اس ہسپتال کو چلانے کے لئے حکومت اس کے قابل نہیں تھی کیونکہ میں

جانتا تھاکہ حکومت اسے نہیں چلا سکتی تھی اور یہ بھی سرکاری ہسپتال بن جائے گا اورکبھی یہاںدوائی نہیںملے گی ، کبھی ڈاکٹر صاحب نہیں ہوں ے۔ انہوںنے کہاکہ معاشرے کے ہر طبقے میں چاہے وہ سیاسی میدان ہے ، بیورو کریسی ہے وہاں پر معاملات بسا اوقات خراب ہوتے ہیںاور میری یہی سوچ تھی کہ یہ ہسپتال کہیں سیاسی رنگ نہ اختیار کر جائے۔میں انڈس ہسپتال کے بانی ڈاکٹر باری کو طیب اردوان ہسپتال لے گیا اورہسپتال ان کے حوالے کیا

اور انہوںنے اسے شاندارطریقے سے چلایا ۔شہباز شریف نے اس موقع پر ایک قصہ سنایا کہ جب میں نے پنجاب کے کرتا دھرتا بلائے تو ایک متعلقہ سیکرٹری نے کہا کہ یہ ہسپتال ان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے بولیاں دینا ہوںگی ۔میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے استفسار کیا کیا ہم دوائیاں منگوا رہے ہیں یامشینری منگوا رہے ہیں کہ سب سے کم بولی دینے والے کو ہم شفاف طریقے سے کنٹریکٹ ایوارڈ دیں گے،ہم یہ ہسپتال ایسے ادارے کو دینا

چاہتے ہیں جو کہ دھیلے کامنافع نہیںلینا چاہتا بلکہ اس نے پنجاب حکومت کے مختص بجٹ میں اسے چلانا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایسے ہسپتالوں کو ایسے اداروں کے حوالے کیا جانا چاہیے جن کا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں نام ہے اورکوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔میں نے اس افسر سے کہا کہ دکھی انسانیت ہے رحم کریں اوروہ آدمی خاموش ہو گیا،میںنے اپنا ڈنڈا چلایا اور ہسپتال ان کے حوالے کر دیا ۔پھر ہسپتال کو120بیڈز تک توسیع کی،

وہاںآرتھو پیڈک سنٹربنایا اور اب وہ ہسپتال پورے علاقے میں مصروف ترین ہسپتال ہے اور شاید لاہور سے بھی لوگ وہاں علاج کے لئے جاتے ہیں، پنجاب حکومت نے اپنے وسائل سے اڑھائی سو بیڈز کے نئے ہسپتال کی توسیع کی لیکن ہم نے اس کا نام طیب اردوان ہی رکھااور فیصلہ کیا کہ ہم اپنے محسن کی تختی نہیںبدلیں گے،یہ صدقہ جاریہ ہے ، یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے اوراسے بھی ہم نے ان کے حوالے کیا ،لاہور میں کاہنہ میں ہسپتال بنایا

وہ بھی ان کے حوالے کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ ہم پر لوڈ ڈال رہے ہیں یہ مناسب نہیںہے، جس پر میں نے کہا کہ آپ لوگ اسے لوڈ سمجھ رہے ہیں ۔ آپ نے ایک اچھا ماڈل بنایا ہے اس کو رواج پانے دیں تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے ترغیب حاصل کریں ،پھر سبزہ زار کا ہسپتال ان کے حوالے کیا ،اسی طرح برکی میں زچہ بچہ کا ہسپتال ، مناواں کا ہسپتال اور رائے ونڈ میں ہسپتال جو چل نہیں رہا تھا وہ بھی ان کے حوالے کیا ۔ شہباز شریف نے کہا کہ

جب مظفر گڑھ میں ہسپتال بن رہا تھا تو میں نے کہا تھاکہ باہر سرخ رنگ کی اینٹیں لگیں گی ،پتھروں اورماربل سے قومیں نہیں بنتی بلکہ محنت دیانت ،امانت ،ماڈل نالج اور ٹیکنالوجی سے قومیں بنتی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ لاہور ،کراچی ،کوئٹہ اورپشاور میں ایسی ہستیاں ہیں جو رزق حلال سے تعلیم اور صحت کے کے میدان میں کروڑوں اربوں روپے اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو بھی حکومت سے جائز کام پڑتے ہیں

کیونکہ افسر شاہی مداخلت کرتی ہے روکتی ہے ، میں انہیں یقین دلاتا ہوں آپ کے جائز کام ضرور ہوں گے لیکن آپ نے ہر جائز کام میں ہسپتال میں پیسے ڈالتے جانا ہے ۔اس موقع پر وزیر اعظم نے ا خوت تنظیم کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب کو اسٹیج پر بلایا اور کہا کہ میری ان سے چار سال بعد ملاقات ہو رہی ہے ۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کی کوشش کی لیکن میری ملاقات نہیں ہوئی جس کا مقصد یہ تھاکہ یہ حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور میرے ساتھ

ملاقات کی وجہ سے کہیں یہ بھی زیر عتاب نہ آ جائیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ بتایا کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران وزیر اعلی بلا سود قرضہ سکیم کے فنڈز بند کر دئیے گئے ہیں۔انہوں بتایا کہ شہباز شریف نے اس اسکیم کا آغاز ساڑھے 3 ارب سے کیا تھا جو چند ہی سالوں میں 12 ارب تک پہنچ گئی تھی۔اس سکیم کے تحت بغیر رنگ و نسل کی تفریق کے لوگوں کی مدد کی گئی تھی، میرا وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ سکیم کے فنڈز دوبارہ بحال

کرتے ہوئے اس سکیم کو پورے ملک کے لیے پھیلایا جائے ۔جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پنجاب حکومت سے بات کروں گا اور تمام سکیمیں جلد دوبارہ بحال ہوں گی ۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہم نے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہوگا ۔ ۔ صنعت، صحت ،تعلیم ، زراعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ،گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ہم ان شعبوںمیںبہت آگے بڑھ

سکتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت آئے یا جائے کوئی ان ایریاز کو ہاتھ نہ لگا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاست کی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن دکھی دل سے کہتا ہوں کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ جو 20ارب روپے سے بنا اوردنیا کا مایہ نازہسپتال تھا ، جوغریب کو مفت علاج معالجے کی سہولت کے لئے بنایا گیا تھا ،ماہرین بیرون ممالک سے لاکھوں ڈالرز کی تنخواہیں چھوڑ کر انسانیت کی خدمت کے جذبے کے تحت پاکستان آئے

لیکن جب ہماری حکومت گئی تو ان لوگوں کونکال دیا گیا ۔، یہ منصوبہ سیاست کی نظر ہو گیا ،کیا ہم نے 75سال میںبھی سبق نہیں سیکھا اور کیا ہم نے سیاست کرتے رہنا ہے ، ہم نے اس منصوبے کو سیاست کی نظر کیا ، اس سے نقصان غریب عوام کا ہوا، لیکن اب یہ دروازہ بند ہو جانا چاہیے ،کوئی آئے یا جائے صحت ،تعلیم ،زراعت ،معیشت ہو اس پر سیاست کرنے کی قطعاًاجازت نہیںہونی چاہیے ،مگر اس کے لئے بڑی سوچ اوربڑادل چاہیے ، اپنی ذات

سے بالا تر ہو کر سوچنا ہوگا ، اس کے لئے بڑا قدر چاہیے ،پسند اور نا پسند سے بالا تر ہونا ہوگا، قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنی انا کو مارنا ہوگا ، کیا پاکستان نے قیامت تک رینگتا رہنا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے خطے میں پوری دنیا میں پاکستان کی امانت دیانت کا جھنڈا اتنا بلند کریں کہ کوئی اس تک نہ پہنچ سکے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک حکومت گئی دوسری حکومت آئی تو سب کچھ سیاست کی نظر کر دیا گیا ،اس سے تمام ادارے تباہ ہوئے ،اس

طرح تو تباہی ہمارا مقدر ہے گی ، اگر ہم نے اپنی تقدیر کو بدلنا ہے تو ہمیں اقبال کے وژن کی پیروی کرنا ہو گی ۔شہباز شریف نے کہا کہ ماربل سے پتھر سے قومیں نہیںبنتیں ، اگر ایسا ہوتاتو پاکستان میں تو ماربل کے ان گنت محلات ہیںلیکن خلق خداہے ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے انتہائی بوجھل دل کے ساتھ پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھائیں، میں سیاست میں جائے بغیر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرض لینے والا ملک کب تک زندہ رہے

گا، ہمیں تو دنیا میںسب سے آگے ہونا چاہیے تھا لیکن آج ہماری حیثیت کیا ہے۔شومیے قسمت یہ کہا گیا کہ بنگلہ دیش بوجھ ہے ،بنگالی بوجھ نہیں تھے بلکہ انہیںبوجھ بنا کر پیش کیا گیا اور کہا کہ ان سے جان چھڑائیں،آج ان کی برآمدات 40رب ڈالر اور ہماری 27سے28ارب ڈالر ہیں۔اگر ہم نے آگے جاناہے توقوم کی ترقی و خوشحالی کی خاطر ہمیںاپنی انا اورضد سے اوپر بڑھنا ہوگا ،معیشت کومضبوط کرنے کے لئے مثال پیش کریں ۔وزیر اعظم

شہباز شریف نے کہا کہ مجبوراًپیٹرولیم کی قیمتیںبڑھانی پڑی ،دنیا میں اس وقت پیٹرولیم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں لیکن مارچ میں جب تحریک عدم اعتماد چل رہی تھی تو یہاں پر قیمتیں کر دی گئیں، آپ نے ساڑھے تین سال میں تو قوم کو ایک دھیلے کا ریلیف نہیں دیا ،ہم نے دل پر پتھر کر قیمتیں بڑھائیں۔پوری کوشش کروں گاکہ غریب آدمی پر جو بوجھ پڑ رہا ہے ان کو ریلیف بھی دیں ،سات کروڑ افراد کے گھرانوں کیلئے دو ہزار روپے ماہانہ

سبسڈی دی ہے جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ ہیں،ہم معیشت کا پہیہ تیز کریں گے ۔انہوںنے کہا کہ میں حال ہی میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور ترکیسے ہو کر آیا ہوں ، میں نے کہا ہے کہ آپ ہمارے عظیم بھائی ہیں اور آپ نے ہمیشہ مدد کی ہے ، آپ سمجھیں گے کہ میں مانگنے آیا ہوں ایسا نہیں ۔ ماضی میں جس طرح آپ نے ہمارا ہاتھ بٹایا ہے اب بھی ہاتھ بٹادیں ،پوری پاکستانی قوم دن رات محنت کرے گی اور ہم اپنے ملک کو اپنے

پائوں پر کھڑا کریں گے ۔ اس کے لئے محنت اورقربانی درکار ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ کب تک ہوتا رہے گا کہ پہلے چینی ایکسپورٹ کر دی پھر امپورٹ کرلی گئی ، گندم پہلے ایکسپورٹ ہو اور پھر ملکی ضرورت کے لئے امپورٹ کی جائے، قومیں صف بندی اورمنصوبہ بندی سے بنتی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ میںدن رات سوچ رہا ہوں ، بجلی کے پلانٹس کی استعداد موجود ہے ، مجھے توآئے ہوئے ڈیڑھ سے پونے دو مہینے ہوئے ہیں، ساڑھے تین سال جو

ہوا اور ملک یہاں پہنچا کیا اس کا بھی حساب لینا ہے یا مجھ سے ڈیڑھ مہینے کا حساب لینا ہے ، میںتواپنا حساب دینے کیلئے تیار ہوں۔شہباز شریف نے کہا کہ کفایت شعاری کے حوالے سے طویل اجلاس کیا ہے اور اس کا ایک یا دو دن میں اعلان آ جائے گا،لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ برداشت نہیںکروں گا،ملک میں بجلی کے منصوبے موجود ہیں لیکن تیل اور گیس مہنگا درآمد کرنا پڑ رہا ہے،میں

نے وزارتوںسے کہا ہے کہ توازن پیدا کریں،اللہ تعالیٰ ہمیں وسائل دیدے گا ۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہم نے ملک و قوم کی ترقی کرنی ہے تو اس میں سیاست کو نو گو ایریا بنا نا ہوگا پھر دیکھیںپاکستان چند سالوں میں راکٹ کی طرح آگے جائے گا اور ہماری سپیڈ کو کوئی نہیںپکڑ سکے گا، اس کے لئے ہمیں محنت کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ نفرتوں اور قدوتیں ختم کریں ،جوزہرآلودہ ماحول ہے اسے ختم کریں تبھی ہم آگے بڑھیں گے ۔ اگر ہمیں اپنے رحم نہیں آتاتو کم از کم اپنی عوام اور اپنی آنے والی نسلوں پر ہی رحم کریں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے تقریب کے اختتام پر مخیر شخصیات کوشیلڈز بھی دیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…