لاہور( این این آئی)خصوصی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں وکلا ء کے دلائل کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کردی جبکہ سلمان شہباز، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے،دوران سماعت وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں نے ایک دھیلے کی
کرپشن نہیں کی ،لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی نے تحقیقات کیں، دبئی، فرانس، سوئٹزرلینڈ میں تحقیقات کرائی گئیں، پونے 2 سال تحقیقات ہوئیں،ایک دھیلے کی بھی کرپشن کی ہوتی تو آج لندن نہیں جا سکتا تھا، جلا وطنی میں لندن اور امریکہ میں قیام کیا، میرے پاس حرام کا پیسہ نہیں تھا، اگر ایسا پیسہ ہوتا تو لندن سے واپس نہ آتا۔خصوصی عدالت کے جج اعجاز اعوان نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے عدالت میں پیش ہو کر حاضری مکمل کرائی ۔دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ اس مقدمے میں تین ملزمان اشتہاری ہیں، ملزمان کے خلاف کارروائی کی درخواست دی ہے، تمام ملزمان پر ایک ساتھ ہی فرد جرم کی جائے۔ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ جو تین ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی مکمل کی جائے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اشتہاریوں کے خلاف تو ضابطے کی کارروائی مجسٹریٹ کی عدالت سے ہو چکی ہے۔
پراسیکیورٹر نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ جو ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف اشتہاری کی کارروائی مکمل کریں، اگر اس کیس کو ایسے ہی لے کر چلا گیا تو آگے جا کر ملزمان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یعنی آپ کہہ رہے ہیں گزشتہ پراسکیوشن نے 4 ماہ ملزمان کو فائدہ دیا۔جج اعجاز حسن اعوان نے ریمارکس دئیے کہ میں نے تو اشتہاری قرار دینے کا آرڈر جاری کر رکھا ہے، جس پر خصوصی پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ کوئی بھی قانونی نکتہ چھوڑنے پر ملزم فائدہ لے سکتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 4 ماہ سے پراسکیوشن کیوں خاموش رہی ہے؟ جس پر خصوصی پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ میں پراسکیوشن کی طرف سے پیش ہوا ہوں یہی گزارش ہے کہ چالان میں اشتہاری ملزموں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔عدالت نے سلمان شہباز سمیت دیگر کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی۔
دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2008 سے 2018 کے دوران کے جوالزامات لگائے گئے ہیں، ان میں سے بہت سارے الزامات کو پراسیکیوشن ٹیم نے چالان میں ختم کر دیا ہے، کہا گیا کہ جعلی کمپنیز کے ذریعے معاملات کو چلایا گیا ہے۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ کہا گیا تھا کہ ایک اکائونٹ میں 2 ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئی تھیں۔
سابقہ تفتیشی ٹیم نے ایف آئی اے میں جو الزامات لگائے ان میں سے متعدد الزامات کو چالان میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ایف آئی آر اور چالان میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہباز شریف کے خلاف ساری تحقیقات کی سربراہی سابق مشیر احتساب نے کی۔انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جن 14 اکائونٹس کا ذکر ہوا وہ سب بینکنگ چینل کے ہیں۔
اس کیس میں ڈیڑھ سال تک بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا، ملزمان نے بغیر ثبوت کے بدنامی برداشت کی۔لگتا ہے ایف آئی آر نیٹ فلیکس چینل سے متاثر ہو کر لکھی گی ہے، نیٹ فلیکس پر فلمیں بہت آتی ہیں یہ بھی ایک فلمی ایف آئی آر ہے۔سماعت کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی میں میرے خلاف تحقیقات کروائی گئیں لیکن کرپشن کا ایک دھیلا بھی ثابت نہیں ہوسکا۔
میں برطانیہ میں رہا کشکول تو نہیں اٹھانا تھا وہاں کاروبار کیا۔میرے خلاف کرپشن کے سیاسی کیسز بنائے گئے ہیں، 10 سال بطور خادم اعلی کام کیا لیکن تنخواہ نہیں لی، میری کروڑ روپے کی تنخواہ بنتی ہے لیکن نہیں لی۔میں نے سرکاری دورے بھی اپنی جیب سے کیے، سرکاری گاڑی میں پیٹرول بھی اپنی جیب سے ڈالواتا تھا، قوم کے اربوں روپے بچائے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے بتایا کہ 18 دسمبر کو ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کو جیل میں سوالنامہ دیا گیا تھا، میرے موکل سے تفتیش کی گئی، 8 جنوری 2021 کو میرے موکل سے جیل میں تفیش کی گئی تھی۔دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 جنوری سے جون 2021 تک اس مقدمے میں ایف آئی اے مکمل خاموش رہی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کی۔
انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں میرٹ پر ضمانت منظور کی گئی تھی، 15 جون 2021 کو ایف آئی اے نے شہباز شریف کو نوٹس بھیج دئیے ،5 ماہ کی خاموشی کے بعد نوٹس بھیجا گیا، یہ نوٹس اس وقت بھیجا گیا جب بجٹ پیش ہونے والا تھا۔شہباز شریف اور حمزہ شہباز قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، شہباز شریف اور حمزہ شہباز وزیر اعظم اور وزیر اعلی ہیں پھر بھی عدالت کے سامنے پیش ہیں۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ یہ وقت صوبے اور ملک کے لیے کام کرنے کا ہے۔عدالت اس بارے میں رہنمائی کرے کہ اس مقدمے کا ٹرائل کونسی عدالت میں ہوسکتا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ اگر جرم بنتا ہے تو وہ کس قانون کے تحت بنتا ہے۔اس کیس میں ابھی متعدد مسائل ہیں، ضمانت کا فیصلہ خلا ء میں کیا جائیگا نہ ہی ہوا میں کیا جائیگا، ضمانت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔عدالت نے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ ضمانت پر دلائل دیں۔
دوران سماعت ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آج ضمانت پر دلائل مکمل ہونا ممکن نہیں ، ابھی ہم نے بھی دلائل دینے ہیں تفتیشی افسر بھی موجود نہیں ہیں۔وزیر اعظم کے وکیل نے استدعا کی کہ آپ ملزمان کو جانے کی اجازت دے دیں ہم جہاں تک ہو سکے گا دلائل دیں گے، اگر ہم روازنہ کی بنیاد پر بھی سماعت کریں تو بھی ہفتے سے پہلے دلائل مکمل نہیں ہوسکتے، اس کیس میں اور بھی ملزم ہیں ان کے وکیل بھی دلائل دیں گے۔
امجد پرویز نے استدعا کی کہ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردیں ہم آئندہ سماعت پر کھانا اور بستر بھی ساتھ لے آئیں گے۔عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیتے ہوئے سماعت ملتوی کی تھی، تاہم مختصر وقفے بعد شروع ہونے والی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 14 اکاوئنٹس سے 10 سال کے عرصے میں ایک پائی بھی کبھی شہباز شریف کے اکائونٹ میں ٹرانسفر نہیں ہوئی۔
کوئی شہادت نہیں ہے کہ ان اکائونٹس میں سے کبھی شہباز شریف نے کوئی پیسے لیے ہوں، کہا جاتا رہا بوریوں میں پیسے لے کر جائے جاتے تھے اور منی لانڈرنگ کی گئی ہے، منی لانڈرنگ کے ثبوت کہاں ہیں۔امجد پرویز نے کہا کہ صرف جھوٹے الزامات لگائے گئے اس کے علاوہ کچھ نہیں، سابق مشیر احتساب نے بھی الزامات لگائے لیکن ثبوت دیئے۔
خصوصی عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ جو پیسہ آیا اورگیا اس کے ذرائع بھی تو بتانے ہیں جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ شہباز شریف کے اکائونٹس میں ایک روپیہ بھی نہیں آیا، چپڑاسی والا ہو یا کوئی صفائی والا اگر اس کے اکائونٹ میں آنے والے پیسے ناجائز نہیں تو یہ جرم نہیں ہے۔عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کرتے ہوئے سلمان شہباز ، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ۔
قبل ازیںپیشی کے موقع پر پولیس کی جانب سے میڈیا کو عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا جبکہ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری عدالت کے باہر تعینات تھی۔شہباز شریف کے عدالت کے روبرو پیش ہونے پر منتظم جج اعجاز ایوان نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کے باہر حالات ٹھیک نہیں ہیں یہ تو وزیر اعظم صاحب کو دیکھنا چاہیے، میری گاڑی کو بھی روکا گیا۔
انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے وکلا ء اور ملزمان کو بھی اندر نہیں آنے دیا جا رہا تھا، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میں جیسے ہی آیا ہوں میں نے کہا ہے کہ صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دی جائے ۔اس موقع پر جج نے کہا کہ ایسا تو کبھی نہیں دیکھا جو حالات اس عدالت کے باہر ہو گئے ہیں۔عدالت نے فوری طور پر سکیورٹی انچارج کو طلب کر لیا۔
جج نے وزیر اعظم کو ہدایت کی کہ عدالت کے باہر جو حالات ہیں وہ ٹھیک ہونے چاہئیں، آپ یہاں بھی وزیر اعظم ہیں۔دوران سماعت شہباز شریف یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ سر میں اس سارے معاملے کو دیکھتا ہوں۔بعد ازاں ایس پی سول لائن عدالت کے روبرو پیش ہوئے، عدالت نے انہیں کہا کہ آپ کو دو دفعہ پیغام بھجوایا ہے آپ کیوں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
ایس پی سول لائن نے اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ہم سے کوارڈی نیشن میں کوتاہی ہو گئی ، میری گزارش ہے شوکاز نوٹس نہ دیں میں ذمے داران کے خلاف کارروائی کروں گا۔عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی یہ سکیورٹی ہے کہ آپ ججز کی گاڑیوں کو بھی روک لیتے ہیں۔
دوسری جانب سماعت شروع ہونے سے قبل عطا تارڑ نے صحافیوں کے ساتھ کمرہ عدالت کے باہر دھرنا دیتے ہوئے کہا کہ جب تک صحافی کمرہ عدالت میں نہیں جائیں گے وزیر اعظم صاحب کو بھی کمرہ عدالت میں جانے نہیں دوں گا۔عطا تارڑ اور صحافیوں کے احتجاج پر سکیورٹی سٹاف نے میڈیا کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔احتساب عدالت میں رمضان شوگر ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی اور عدالت کو آگاہ کیاگیا کہ امجد پرویز ایڈووکیٹ خصوصی عدالت میں دلائل دے رہے ہیں۔ مذکورہ عدالت میں کیس کی سماعت4جون تک ملتوی کر دی گئی۔