اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ٗ این این آئی) روزنامہ جنگ میں طاہر خلیل کی خبر کے مطابق پارلیمانی ذرائع نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے اس دعوے کو غلط قرار دیا ہے کہ قومی اسمبلی میں ن لیگ کے 3 ارکان ساتھ چھوڑ چکے اور قومی اسمبلی میں شہباز حکومت کے پاس 171 ووٹ رہ گئے جبکہ حکومت بنانے اور اعتماد کا ووٹ لینے کیلے کم سے کم 172 ووٹ ہونا ضروری ہیں۔
10 اپریل کو عمران خان کیخلاف عدم اعتماد تحریک میں شہباز شریف کے پاس 174 ووٹ تھے۔دوسری جانب قانونی ماہر سلما ن اکرم راجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد اس صورتحال نے جنم لیا ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹی کی ہدایت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، بجٹ یا آئینی ترامیم میں ووٹ نہیں دے سکتے ۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے بعد اب اس صورتحال نے جنم لیا ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی پارٹی کی ہدایت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، بجٹ یا آئینی ترامیم میں ووٹ نہیں دے سکتے کیونکہ ان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہوگا۔انہوںنے کہاکہ تحریک عدم اعتماد اب اسی صورت ممکن ہے جب ایک مخلوط حکومت ہو جیسے عمران خان کی تھی اور اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں۔ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہی اب آئین کے آرٹیکل 63 اے کو پڑھا و سمجھا جائیگا،گورنر پنجاب اب وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب، جس میں حمزہ شہباز کو فتح حاصل ہوئی، میں منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے،ان کے مطابق اب وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوسکتا ہے اور معاملہ عدالت میں بھی جاسکتا ہے۔ان کے مطابق اگر 26 منحرف ارکان ڈی سیٹ ہوتے ہیں تو کوئی امیدوار اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔