کراچی(آن لائن)جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ادارے جب تک پی ٹی آئی کا سہارا بنیں تو سب ٹھیک، نہ بنیں تو تنقید، تبدیلی کے نام پر پچھلا الیکشن لڑنے کے والے اب آزادی کے نعرے لگارہے ہیں، آج عمران خان نئے بیانیہ کے ساتھ مارچ کررہا ہے، یہ ہے تبدیلی، وہ ہماری نقالی کر رہا ہے، نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ہم امریکا کے خلاف کاز کی بنیاد پر کرتے ہیں
اور یہ کارڈ کی بناد پر ، عمران خان نے کشمیر کے تین حصوں میں تقسیم کی بات اور یہی بات پاکستان کے حوالے کی، پاکستان کی تقسیم کی بات یا کوشش کرنے والوں کو قوم تسلیم نہیں کرے گی۔ فوج ہم سب کی ہے اور ہم ہمیشہ غیرجانبداری کی بات کرتے ہیں، آج فوج غیر جانبدار آئینی حدود میں ہے ،تو کبھی ان کو جانور کبھی چوکیدار اور کبھی میر جعفر قرار دیا جاتا ہے، ایک مخصوص بیرونی ایجنڈے کی راہ میں آج ہم رکاوٹ بنیں ہیں تو اشرافیہ ، الیٹ کلاس اور ریٹائرڈ فوجی و سول افسران کو تکلیف ہورہی ہے، فوج کسی حکومت کی نہیں ریاست کی چوکیدار ہے۔ حکومت کی چوکیدار عوام، آئین ، جمہوری نظام ہے۔ ساڑھے 3 سال کا گندہ 3 دن میں ختم نہیں ہوسکتا ہے، مناسب وقت پر الیکشن ہونگے ، جلسے کرنا سب کا حق ہے مگر اداروں میں تقسیم پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو کراچی پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس سے خطاب میں کیا۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ، سیکریٹری رضوان بھٹی، جمعیت علما اسلام کے مولانا راشد محمود سومرو مولانا سعید یوسف کشمیری، قاری محمد عثمان ، مولانا غیاث ، مولانا سمیع سواتی، بابر قمر عالم اور دیگر بھی مو جود تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے اور پٹڑی پر لانا ہے۔ اس کے مواقع ہمیں طے کرنے ہوں گے۔ آج عمران خان نئے بیانیہ کے ساتھ مارچ کررہا ہے،
یہ ہے تبدیلی، وہ ہماری نقالی کر رہا ہے، نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جمعیت علماء اسلام نے 14 ملین مارچ کئے، آزادی مارچ تاریخی مارچ تھا، جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اداروں نے بھی تسلیم کرلیا کہ عمران خان یہ نظام چلنے والا نہیں، ہمارا اداروں سے مطالبہ تھا کہ آپ فریق نہ بنیں، ہم نے حدود سے تجاوز نہیں کیا اور اپنی بات کرتے رہے۔ ہمارا موقف یہ تھا ادارہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان فریق نہ بنے، آج ہمارے موقف کی تائید
کی جارہی ہے۔ پسماندہ ملک سے ترقی پذیر ملک تک کا سفر بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان تین، چار سال میں بہت تیزی سے پیچھے آیا، پاکستان کی معیشت ان تین سالوں میں صفر ہوگئی۔ کچھ لوگ پاکستان کو اپنی تہذیب کے لحاظ سے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں، اسی لئے عمران خان کو پہلے خیبر پختونخوا اور پھر پاکستان میں مسلط کیا گیا، آج جب ہم انکی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں تو اشرافیہ ، الیٹ کلاس اور
کچھ فوجی و سول افسران کو پریشانی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی معاشی اور سفارتی پالیسیوں نے ملک کو شدید ترین نقصان پہنچایا، عوام کے لیے بجلی کے بلوں اور بچوں کی اسکول فیس جمع کروانا تک مشکل ہوگیا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہیں مسلم دنیا میں سب سے قریبی دوست سعودی عرب پاکستان سے مایوس ہوگیا تھا، چین جیسے دوست نے بھی خود اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھالیا تھا۔ اب یہ
ممالک تعلقات کو بھر بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جہاں پر فوج جانا چاہ رہی ہے ہم اس میں تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ایک آدمی اپنے مقام پر جانا چاہ رہا ہے جو اس کا آئینی مقام ہے، تو ہم کیوں اس میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ وہ اپنے مقام پر جا رہا ہے تو وہ میر جعفر ہو گیا۔ جب تک وہ پشت پر تھا قوم اس پر شکایت کر رہی تھی، اعتراضات اور تحفظات تھے۔‘ہمیں تضادات کا شکار نہیں ہونا ہے۔ ہمیں بالکل ایک ہی رائے پر جانا چاہیے اور اگر
وہ اپنے مقام پر واپس جانا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس میں رکاوٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کشمیر تقسیم کرنے کی بات کی ہے۔ عمران خان نے پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات کی ہے۔ ’اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ اب بھی عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہے۔ فوج فریق نہ بنیں، یہ ریاست کا ادارہ ہے۔ حکمران بھی آپ کو ہماری فوج کہتے ہیں اور اپوزیشن بھی۔ ہم نے حدود سے تجاوز نہیں کیا لیکن اپنی
بات کرتے رہے اور ایک ایسا وقت آیا جب حقائق کا اداراک ہوا۔ انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر ان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ نیوٹرل ہو گئی تو اس کو جانور سے تعبیر کیا گیا۔ آج میر جعفر کے لفظ سے پکارا جاتا ہے جو کسی فرد واحد نہیں تاریخ کی دغا اور بغاوت کا کردار ہے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آج جب ہمیں کامیابی ملی اور پارلیمان کے راستے حکومت کو گرایا کہ ہمیں کھلبی نظر آئی ہے اشرافیہ ، الیٹ کلاس
اور سابق فوجی و سول افسران میں۔عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہ آسمان سے نہیں اترا، اس کو ہماری بھی سننا پڑے گی۔ ’ہماری نظر میں جو حکومت جعلی اور عوام کی نمائندہ نہیں اس کے معاہدے ریاست کے ساتھ معاہدے نہیں، ریاست کو ان کا پابند ہونے کی ضرورت نہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کے حوالے سے کہا کہ آج کا بیانیہ جعلی خط ہے۔جس پر قومی سلامتی
کمیٹی امریکہ کا موقف سامنے آ چکا ہے اور اس کے لیے جھوٹ، لغو اور پروپیگنڈہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ عمران خان نظریاتی لحاظ سے کنگال آدمی ہے اور وہ آج امریکہ مخالفت کا چورن بیچنے پر آگئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ اب بھی عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہے۔نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہ جس گراؤنڈ پر گئے ہیں اسی پر واپس آئیں گے اور وہ ان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔انہوں نے عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں میر جعفر سے مراد شہباز شریف ہیں۔’عمران خان بتائیں شہباز شریف سپہ سالار کب تھے۔