اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ڈی چوک میں دس لاکھ جمع ہونگے ،جلسے میں سے گزر کر لوگوں کو تحریک عدم کی ووٹنگ کے جانا پڑے گا اور اسی مجمع سے واپسی ہوگی،اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لے لینی چاہیے بدلے میں دیکھتے ہیں کیا دیا جاسکتا ہے ،جلد انتخابات سمیت متعدد معاملات پر بات چیت ہوسکتی ہے۔
بات کر نے میں کوئی حرج نہیں، جب بیٹھیں گے بات ہوگی تو ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں یکطرفہ کوشش تو کوئی بھی نہیں کریگا،عثمان بزدار کا ہٹنا مشکل نہیں، ان کا متبادل لانا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی میں سوائے میرے اور عمران خان کے کوئی بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ۔ ایک انٹرویومیں فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے ہماری سیاست میں ذاتیات کے سوا پالیسی کے فرق کا زیادہ معاملہ نہیں، جب سے یہ تحریک پیش کی گئی ہے بہت تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں، زبانوں میں تلخیاں آگئی ہیں، سخت بیانات آتے ہیں اور ایک ماحول پید ہوجاتا ہے جس میں بہت سی ایسی چیزیں ہوجاتی ہیں جو دونوں فریقین نہیں ہوتے دیکھنا چاہتے۔انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے تک سیاسی فضا اس قدر ہوجائے گی کہ اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا اس لیے میری رائے میں کوئی ایسا حل نکالنا چاہیے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک واپس لے اور دیکھتے ہیں کہ انہیں بدلے میں کیا دیا جاسکتا ہے۔
تحریک واپس لینے کی صورت میں پوزیشن کو بدلے میں کیا دے سکتے ہیں کہ سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ متعدد چیزوں پر بات چیت ہوسکتی ہے مثلاً انتخابی اصلاحات، نیب قانون، انتخابات کی تاریخ اور طریقہ کار کے علاوہ جو بھی اپوزیشن کے معاملات ہیں ان پرکھلے دل سے بات ہوسکتی ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو عالمی صورتحال ہے اس میں دیکھا جائے تو ہم 3ـ4 ہفتے سیاست میں لگے رہیں گے اور جب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پاکستان کی معیشت کو اتنا نقصان پہنچ گیا ہوگا کہ اس کو کھڑا کرنا ہی مسئلہ بن جائے گا اس لیے ملک کے مفاد کو پہلے دیکھنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اگر جلد انتخابات کرانا چاہتی ہے تو یہ بھی ایک مطالبہ ہے جو وہ رکھ سکتی ہے، بات میں تو کوئی حرج نہیں، جب بیٹھیں گے بات ہوگی تو ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں یکطرفہ کوشش تو کوئی بھی نہیں کریگا۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز حکومتی اتحادیوں کا ساتھ چھوڑ دینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگرچہ اتحادیوں نے ہمیں حمایت کا یقین دلایا ہے تاہم انہی کے کچھ رہنماؤں کی مختلف گفتگو بھی آئی ہے۔
اس لیے کہ پارٹی کے اندر مقامی سیاست کا بھی ایک عنصر ہوتا ہے، جس طرح مسلم لیگ (ق) اگر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے گی تو اس کے اندر سے بھی ردِ عمل آئے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا عہدے سے ہٹنا مشکل نہیں ہے مسئلہ یہ کہ ان کی جگہ یہ منصب کسے دیا جائے کیوں کہ ایک انار ہے 100 بیمار ہیں، ہر بندہ ہی پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا چاہتا ہے اور اس عہدے پر کسی ایک گروپ کا دوسرے سے اتفاق رائے نہیں ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ڈی چوک پر جلسہ اس لیے کرررہے ہیں کہ ننھے منے جلسے کرنے والے دیکھ لیں کہ اصل میں جلسہ کیا ہوتا ہے اور دیکھ لیں کہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں کہ نہیں، اس طرح ایک چھوٹا سا ریفرنڈم ہوجائے گا اور جلسے میں سے گزر کر لوگوں کو تحریک عدم کی ووٹنگ کے جانا پڑے گا اور اسی مجمع سے واپسی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ جلسہ ڈی چوک پر ہوگا اور 10 لاکھ لوگ ہوں گے، دیکھتے ہیں کیا صورتحال ہوتی ہے۔
اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لے لینی چاہیے تا کہ اتنی تلخیاں نہ بڑھیں تلخیاں کم کرنے کی ضرورت ہے۔جہانگیر ترین اور علیم خان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ ان کے چھوٹے موٹے اختلافات ختم کر کے انہیں واپس لے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپنا رکھ رکھاؤ رکھا ہے، اختلافات ہوجاتے ہیں لیکن انہیں حل کرلیا جائے گا، آئندہ 48 سے 72 گھنٹوں میں بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں سوائے میرے اور عمران خان کے کوئی بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہے، ہر بندہ چاہتا ہے لوکل گورمنٹ نہ ہی آئے کیوں کہ اگر یہ نظام آیا تو صوبائی فنانس کمیشن ہوگا، پیسہ صوبوں سے اضلاع میں چلا جائے گا جو ہم ہونے نہیں دے رہے، وزیر اعلیٰ نے ساری انتظامیہ اپنے ارد گرد رکھی ہوئی ہے پیسہ سارا ان کے پاس ہے، اس سسٹم کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اپنی حکومت کے پہلے ہی سال بلدیاتی انتخابات کرانے چاہیے تھے، پہلے سال جو 2ـ3 بڑی غلطیاں ہم نے کیں اس میں ایک یہ بھی تھی۔باقی غلطیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ ہم جتنا اچھا بننے کی کوشش کرلیں کہ نیب آزاد ادارہ ہے، ہمارے ماتحت نہیں ہے، بالآخر سب نے یہی کہنا ہے کہ ہم احتساب میں ناکام ہوگئے اس لیے ہمیں نیب ختم کر کے ایف آئی اے کے ساتھ ضم کر کے ایک وفاقی ادارہ بنانا چاہیے جس طرح بھارت میں سی بی آئی اور برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے۔
پوری دنیا میں ایک ہی ادارہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں نیب ختم کر کے ایف آئی اے کے ساتھ ضم کر کے اپنے ماتحت کرنا چاہیے تھا پھر ان کیسز کو ہم حل کرتے ہیں اب ہمارا ووٹر مطمئن نہیں ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہم نے دیر کردی، ابھی نیب ہمارے ماتحت نہیں ہے لیکن اس کا الزام ہم اپنے سر لے رہے ہیں یا تو وہ ہمارے ماتحت ہوتا تو ٹھیک تھا۔