ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

1985 میں میرے والد جنرل اختر عبدالرحمن افغان جہاد لڑ رہے تھے بتایا جائے کن پیسوں کی وجہ سے سوئس کیس میں ملوث کیا جارہا ہے،ہارون اختر

datetime 22  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) 2000ء کی دہائی میں جس وقت نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر کیخلاف تحقیقات کر رہا تھا اور وہ اثاثے منجمد کردیے جو نیب کے خیال میں زاہد علی اکبر کے تھے لیکن دوسرے لوگوں کے نام پر رکھے گئے تھے، اس وقت وہ ایک ایسے منصوبے پر غور کر رہے تھے جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ نیب کو اس کا پتہ نہیں

چلے گا۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق کریڈٹ سوئیز کے لیک ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے تحقیقات کے دوران ہی وہاں ایک کمپنی اکائونٹ کھولا اور نیب کی جانب سے اپنے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر کیے جانے سے بمشکل ایک ماہ بعد ہی اسے بند کر دیا۔ اکائونٹ بند ہونے سے چار ماہ قبل تک اس میں تقریباً 11.8؍ ملین ڈالرز (15.5؍ ملین سوئس فرانک) موجود تھے۔ اس وقت نیب نے 77 ایسے اکائونٹس اور کئی جائیدادوں کو پتہ لگایا جو نیب کے متعلق زاہد علی اکبر اور ان کے اہل خانہ کی ملکیت تھیں۔اس وقت تحقیقات کار یہ تو بتا رہے تھے کہ ریٹائرڈ جرنیل نے تحقیقات کے دوران ہی کچھ جائیدادیں فروخت کی تھیں جو قانوناً جرم ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے ایک اکائونٹ کریڈٹ سوئیز میں کھول کر اس میں کروڑوں کی دولت چھپائی تھی۔ زاہد علی اکبر نے سوالوں کو جواب دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اُس عرصہ کے دوران اکائونٹ کھولا تھا لیکن

فنڈز اس مخصوص وقت کے نہیں ہیں، جو کچھ بھی دولت تھی وہ پاکستان میں ٹیکس حکام کو بتا دی تھی اور قانوناً ٹیکس بھی ادا کیا ہے۔تاہم، وہ اس سوال کا جواب نہیں دے پائے کہ نیب یہ اکائونٹ اُس وقت کیوں ڈھونڈ نہ پایا تھا۔ زاہد علی اکبر کے ،اختر عبدالرحمان کے تین بیٹوں کے بھی وہاں اکائونٹ تھے،مشترکہ اکائونٹس میں 2003ء تک 50؍ لاکھ سوئس

فرانک تھے اور صرف اکبر کے اکائونٹ میں 2010ء تک 90؍ لاکھ سوئس فرانک تھے۔ غازی نے مختصر جواب میں اس معلومات کو غلط اور قیاس آرائی پر مبنی قرار دیا۔نجی ٹی وی جیو  نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر)اختر عبدالرحمن کےصاحبزادےہارون اختر خان نے کہاہےکہ کہاجارہا ہے 1985ء میں سوئس اکائونٹس کھلا، میرے والد

جنرل اختر عبدالرحمن اس وقت افغان جہاد لڑ رہے تھے ،وہ1988ء میں انتقال کر گئے ، اگر میرے والدکو ملوث کرنا ہے تو بتایا جائے کس وجہ سے اور کن پیسوں کی وجہ سے ملوث کیا جارہا ہے.انہوں نے کہا کہ میڈیا میں آنے والی معلومات درست نہیں ہیں، یہ قیاس پر قائم کی گئی ہیں جس اخبار نے لکھا ہے اس نے کہا کہ جنرل اختر عبدالرحمن پر40سال

میں کسی قسم کا کوئی الزام نہیں لگا،انہوں نے ایک بڑی کامیاب جہاد لڑی جس کے نتیجے میں سوویت امپائر ٹوٹا اور یہ دنیا تبدیل ہوئی .انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے سے کاروبار سے شروع کرکے یہاں تک پہنچے ہیں، ہمارے کاروبار کی کامیابی کی وجہ سے ہم پر انگلی اٹھائی جارہی ہے ،میں نے23سال کی عمر میں ایکچوریل سائنس کی اعلیٰ ڈگری فیلو شپ لیکر دنیا

میں ریکارڈ قائم کیا تھااور آج تک یہ ریکارڈ نہیں ٹوٹا، میرے بھائی ہمایوں بھی ایکچوریل سائنٹسٹ ہیں اور دوسرے بھائی چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں،ہم سب خود مختار ہیں ہم سے سوال پوچھتے ، ہمارے والد کے اوپر کیوں الزام لگایا؟ مطلب یہ ٹارگٹڈتھا،یہ بینک کی انفارمیشن نہیں ہے یہ لیک ڈاکیومنٹس ہیں ،بینک نے اپنے بیان میں اس لیکس کے پیچھے ’’کسی خاص مقصد

کے چھپے ہونے‘‘ کا اندیشہ ظاہر کیاہے.یہ معلومات متعصب و جانبدار نتیجے سے اخذکی گئی ہیں،ہم تین بھائی کاروباری لوگ ہیں ہم پاکستان آنے سے پہلے بھی کاروبار کرتے تھے اور پاکستان میں بھی ہم نے کاروبار کیا ہے،ہماری ملٹی نیشنل سے ڈیلنگ ہے ہمارے جوائنٹ وینچرز ہیں ہم ایکسپورٹرز ہیں ہمارے لیٹر آف کریڈٹس کھلتے ہیں ،آئے دن ہم بینکوں سے

ڈیل کرتے ہیں تو کسی بینک میں کسی وجہ سے کسی جوائنٹ وینچر کی وجہ سے تحقیقات اگر ہوئی ہے اور لیک ڈاکیومنٹ میں انہوں نے اس تحقیقات کو لے کے میرے والد پر ڈال دیا ہے تو یہ کہاں کی صحافتی اقدارہیں۔نمائندے کےمطابق دونوں جرنیل، زاہد علی اکبر اور اختر عبدالرحمان کا عرصہ ملازمت تقریباً ایک جیسا ہی ہے لیکن دونوں مختلف عہدوں پر تھے۔

زاہد انجینئرنگ برانچ میں تھے اور وہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری اور جی ایچ کیو کی تعمیرات کے شعبے کے سربراہ تھے اور اس کے بعد وہ واپڈا اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔عدالتی ریکارڈ کے مطابق، نیب نے انہیں 1985ء اور اس کے بعد کمائی گئی دولت پر پکڑا تھا اور ان کے نام پر درجن بھر گھر، تجارتی اور زرعی جائیدادیں سامنے آئی تھیں۔

پہلی خریداری انہوں نے 1959ء میں 12 کنال کا گھر (سرور روڈ راولپنڈی) میں خرید کر کی، اُس وقت وہ فوج کی انجینئرنگ برانچ میں کیپٹن رینک کے افسر تھے۔مجموعی طور پر نیب نے بتایا تھا کہ اُن کے پاس 26؍ کروڑ 76؍ لاکھ 9874؍ روپے کے اثاثہ جات تھے اور نیب کا کہنا تھا کہ یہ دولت ان کے آمدنی کے معلوم ذرائع میں شامل نہیں۔بے نامی داروں

کی جانب سے پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد ان کے اثاثوں کی مالیت کم ہو کر 19؍ کروڑ 99 لاکھ 79 ہزار 273 ہو گئی۔ کریڈٹ سوئیز (جہاں انہوں نے 2004ء میں اکائونٹ کھولا اور 2006ء میں بند کر دیا) کا اب سامنے آنے والا ڈیٹا سامنے رکھا جائے تو نیب کی جانب سے بتائی گئی رقم معمولی لگتی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا کریڈٹ سوئیز میں ان کے

پاس صرف ایک ہی اکائونٹ تھا۔2012ء میں ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ نیب کو برطانوی حکام سے اطلاع ملی ہے کہ ایک پاکستانی نے بھاری رقم کا ایک چیک لندن میں قائم سوئس بینک میں جمع کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اسلئے آگاہ کیا گیا کہ جس شخص نے یہ اقدام کیا تھا وہ نیب کو مطلوب تھا اور اس کیلئے وارنٹ بھی جاری ہو چکے تھے۔

مذکورہ شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے، برطانیہ نے پاکستان کو اس کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔افسر کا کہنا تھا کہ ان ملکوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، ان لوگوں نے ہمیں اس لئے آگاہ کیا کیونکہ یہ لوگ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک چیک کو روک نہیں سکتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مذکورہ شخص کو برطانیہ بدر کیوں نہیں کیا گیا تو نیب

افسر نے وجہ بتائی کہ پاکستان کی برطانیہ کے ساتھ ملزمان کی ملک بدری کا معاہدہ نہیں تھا۔مذکورہ افسر نے اُس شخص کی شناخت بتانے سے انکار کر دیا۔ جہاں تک زاہد علی اکبر کا تعلق ہے تو 2001 میں تحقیقات شروع ہوئیں اور ریفرنس جولائی 2006ء میں دائر ہوا لیکن اس وقت تک ریٹائرڈ جرنیل ملک سے فرار ہو چکے تھے۔ احتساب عدالت نے انہیں

مفرور قرار دیا اور ان کیخلاف ریڈ نوٹس جاری کیے گئے۔2013ء میں انہیں بوسنیا سے گرفتار کیا گیا لیکن پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں برطانیہ بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ زاہد کے پاس برطانوی شہریت تھی۔ جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔ 2015ء میں انہوں نے کرپشن کے الزامات

کو قبول کیا اور پلی بارگین کی درخواست دی جو 2016ء میں منظور ہوئی۔ 20؍ کروڑ روپے جمع کرانے پر الزامات ختم کیے گئے۔کریڈٹ سوئس نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کےبینکنگ رازداری کے سخت قوانین اسے انفرادی کلائنٹس کے دعوئوں پر تبصرہ کرنے سے روکتے ہیں۔بینک نے ایک بیان میں کہا کہ کریڈٹ سوئس بینک مطلوبہ کاروباری طریقوں کے بارے

میں الزامات اور قیاس آرائیوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے،رپورٹرز کے ذریعے سامنے آنے والے معاملات ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر منتخب کردہ معلومات ‘‘پر مبنی ہے۔اگرچہ کریڈٹ سوئس کلائنٹ کے ممکنہ تعلقات پر تبصرہ نہیں کر سکتا، لیکن ہم تصدیق کر سکتے ہیں کہ متعلقہ اوقات میں قابل اطلاق پالیسیوں اور ریگولیٹری تقاضوں کے مطابق اقدامات کیے گئے ہیں اور متعلقہ مسائل کو پہلے ہی حل کیا جا چکا ہے۔بینک نے یہ بھی کہا کہ الزامات بڑی حد تک تاریخی تھے، بعض صورتوں میں یہ اس وقت سے تعلق رکھتے ہیں جب ’’قوانین، طرز عمل اور مالیاتی اداروں کی توقعات اس وقت سے بہت مختلف تھیں جہاں وہ اب ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…