اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )رحمت اللعالمین ، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ کسی شخص کے دل میں ایمان اور حسد اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ ایمان دار وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال اور جان محفوظ سمجھیں۔ سادگی ایمان کی علا مت ہے ایسی نعمت کسی کو بھی نہیں ملی۔ جو صبر سے بہتر اور بڑی ہو دو آدمیوں کے درمیان صلح کروا دینا صدقہ ہے
افضل جہاد حق بات حاکم کے منہ پر کہنا ہے جو شخص اس بات خوش ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھ لے۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا کہ مو من ایک ہی سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جا تا حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا بد ترین شخص وہ ہے۔ جس کے ڈر سے لوگ اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوں حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا کہ انصاف کی ایک گھڑی سالوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا جس نے علم کا راستہ اختیار کیا اس نے جنت کا راستہ اختیار کیا ۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا بازار سے اولاد کے لیے جو بھی لاؤ سب سے پہلے بیٹی اور پھربیٹے کو دو۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا جہا لت افلاس کی بد ترین شکل ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا اپنی محنت کی کمائی سے بہتر کھا نا کسی شخص نے کبھی نہیں کھا یا حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا خاموشی بہت بڑی حکمت ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا میا نہ روی اختیار کرنے والا کسی کا محتاج نہیں ہو تا۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا رونا دل کو روشن کر تا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا زبان سے اچھی بات کے سوا کچھ نہ کہو۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا کہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ بدلہ نہیں لیتا۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا کہ اپنی کمائی پاک رکھو تمہاری دعا قبول ہو گی۔
فصاحت وبلاغت کے پیکر اور بے مثال ادیب عرب حضرت محمدمصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا ہے۔ (صحیح بخاری) جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺچھوٹی سی عبارت میں بڑے وسیع معانی کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ آپﷺ کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک اہم ترین خصوصیت
یہ بھی ہے۔ کہ جس وقت آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ سے پڑھنے کے لئے کہا گیاتو آپﷺ نے مَا اَنَا بِقَارِئکہہ کر معذرت چاہی، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی خاص الخاص تربیت ہوئی کہ آپﷺ کے قول وعمل کو رہتی دنیا تک اسوہ بنادیا گیا۔آپﷺ کے اقوال زریں سے مستفید ہونے والے حضرات بڑے بڑے ادیب وفصیح
وبلیغ بن کر دنیا میں چمکے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلے بعض جملے رہتی دنیا تک عربی زبان کے محاورے بن گئے۔ آپﷺ کے وعظ ونصیحت، خطبے، دعا اور رسائل سے عربی زبان کو الفاظ کے نئے ذخیرہ کے ساتھ ایک منفرد اسلوب بھی ملا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ صرف تین جگہ پر جھوٹ بو لنا جائز اور حلال ہے آدمی اپنی
بیوی سے بات کر ے تا کہ اس کو راضی کر لے۔ جنگ میں جھوٹ بو لنا۔ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بو لنا ۔(Fatwa:862-726/sd=11/1440)مشہور حدیث ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس بالکاذب من أصلح بین الناس، فقال خیرا أو نما خیرا، وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان معاملات کو سنوارتا ہے، پس وہ کوئی بھلی بات کہتا ہے یا وہ کوئی بھلی بات منسوب کرتا ہے، اس مضمون کی حدیث الفاظ کے فرق کے
ساتھ دوسری سند سے بھی وارد ہوئی ہیں، سب کا حاصل یہ ہے کہ باہم مصالحت کی دین اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے اگر بظاہر جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑے، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ صلح کے مقصد سے صریح جھوٹ بولنا جائز ہے یا صرف توریہ کی گنجائش ہے؟ تفصیلی بحث ترمذی شریف کی شرح تحفة الالمعی جلد :۵، صفحہ ۲۸۰تا ۲۸۵موجود ہے، ملاحظہ فرمالیں۔