اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اپنی تین سال کی کارکردگی رپورٹ میں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) نے بتایا ہے کہ ادارے کو سب سے زیادہ شکایات (اپیلیں) وزارت دفاع کیخلاف موصول ہوئیں جس کے بعد وزارت قانون، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا نمبر ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق18؍ نومبر 2018ء تا 15؍ دسمبر 2021ء کی کارکردگی رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ مجموعی طور پر 141؍ اپیلیں وزارت دفاع اور اس کے منسلک محکموں کیخلاف موصول ہوئیں جس کے بعد وزارت قانون و انصاف 44؍، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ 42، وزارت خزانہ 37، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت اطلاعات و نشریات 34-34، سی ڈی اے 33، قومی احتساب بیورو اور وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت 32-32 جبکہ ایف آئی اے کیخلاف 31؍ شکایات موصول ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 اپیلیں وزارت داخلہ اور 30 اپیلیں کابینہ ڈویژن، 27-27 اپیلیں نادرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت مذہبی امور کیخلاف موصول ہوئیں۔ 25 اپیلیں سینیٹ سیکریٹریٹ، 24 اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، 23 وزارت انسانی حقوق، 23 وزارت ریلویز، 22 ہائر ایجوکیشن کمیشن، 21 اپیلیں وزیراعظم سیکریٹریٹ جبکہ 21؍ اپیلیں وزارت خارجہ کیخلاف موصول ہوئیں۔ معلومات تک رسائی میں تاخیر یا پھر غیر قانونی طور پر معلومات فراہم کرنے سے انکار کرنے پر کمیشن نے وفاق کے سرکاری اداروں کیخلاف شہریوں کی جانب سے دائر کردہ اپیلوں پر 395 تفصیلی فیصلے جاری کیے۔
سب سے زیادہ 33؍ فیصلے وزارت دفاع اور اس کے منسلک محکموں کیخلاف جاری کیے گئے۔ 11؍ فیصلے وزارت ریلویز اور 11؍ فیصلے سی ڈی اے کیخلاف جاری ہوئے جس کے بعد ایف بی آر، ایس این جی پی ایل اور نیشنل بینک میں سے ہر ایک کیخلاف 11؍ فیصلے جاری کیے گئے جبکہ 8؍ فیصلے ایف آئی اے، نادرا، کابینہ ڈویژن، وزارت خارجہ اور وزارت قانون و انصاف کیخلاف جاری کیے گئے۔
سات آرڈر وزارت داخلہ، وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کو آرڈینیشن، قومی احتساب بیورو، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں سے ہر ایک کیخلاف 6؍ فیصلے جاری کیے گئے۔ لیسکو، پیسکو، میپکو، این ایچ اے اور اسلام آباد ماڈل کالجز میں سے ہر ایک کیخلاف 5، ای او بی آئی، ایچ ای سی اور وفاقی وزارت تعلیم، وزارت مذہبی
امور، فیڈرل ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی، وزارت خزانہ، وزارت ماحولیاتی تبدیلی میں سے ہر ایک کیخلاف 4؍ فیصلے جاری کیے گئے۔ کارکردگی رپورٹ کے مطابق، اب تک 30؍ فیصلوں کیخلاف وفاقی اداروں نے ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کی گئیں۔ اُن میں سے 5 میں پی آئی سی کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا جبکہ باقی پر سماعت جاری ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے اب تک کمیشن کے کسی
بھی فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ اب تک رجسٹرار سپریم کورٹ، کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، پی ٹی سی ایل، ای سی پی، صدر مملکت کے دفتر، ایس این جی پی ایل، وزارت قانون، پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی فائونڈیشن اور این ٹی ڈی سی نے پی آئی سی کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ قانون کے تحت پی آئی سی کے فیصلے پر عمل کی بجائے، سینیٹ سیکریٹریٹ
نے کمیشن کو ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو اختیار ہے کہ وہ سینیٹ سیکریٹریٹ کے کسی بھی یا پھر مکمل ریکارڈ کو خفیہ قرار دے سکتے ہیں۔ سینیٹ سیکریٹریٹ سے پوچھا گیا تھا کہ اسامیوں کی منظور کردہ تعداد (ایس این ای)، خالی اسامیوں کی تعداد اور معذور افراد کا کوٹہ کتنا ہے۔ پی آئی سی کے مطابق، معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت یہ
معلومات عام (پبلک انفارمیشن) ہے۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ شہریون کو وفاقی سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، چاہے یہ وفاقی ادارے آئینی ادارے ہوں، وفاقی وزارتیں، کمیشنز، تعلیمی ادارے، الیکٹرک سپلائی کمپنیاں، ریگولیٹری ادارے یا پھر مختلف کمیشنز۔ وفاقی ادارے اُس وقت معلومات فراہم کرتے ہیں جب ان کیخلاف
قانون کے تحت معلومات کی فراہمی کی درخواست دائر کی جاتی ہے، حتیٰ کہ کچھ معاملات میں یہ معلومات عام نوعیت کی بھی ہوتی ہیں اور ان کے حصول کیلئے کسی بھی قانونی فورم پر درخواست دائر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پی آئی سی کے مطابق، ملک میں اچھی طرز حکمرانی کیلئے سرکاری ملازمین کو وفاقی وزارتوں میں شفاف کارگزاری کی اہمیت کا اندازہ
نہیں۔ شہریوں نے 40؍ وفاقی وزارتوں کیخلاف 713؍ درخواستیں دائر کیں جبکہ کمیشن نے مجموعی طور پر 140؍ احکامات جاری کیے۔ شہریوں کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں کے حوالے سے پی آئی سی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اپیلیں سرکاری ملازمین کیخلاف انکوائری رپورٹس، بھرتی کے معاملے میں امیدواروں کی میرٹ لسٹ اور انتخاب کے طریقہ کار، سرکاری
اداروں کی جانب سے تھرڈ پارٹی کنٹریکٹرز کے ذریعے سینیٹری ورکرز اور سیکورٹی گارڈز کی بھرتی کیلئے کیے جانے والے معاہدوں، سائبر قانون کی مختلف شقوں کے تحت دائر کردہ ایف آئی آرز، مختلف سرکاری اداروں میں منظور کردہ اسامیوں کی تعداد اور خالی اسامیوں کی تعداد، معذوروں کے کوٹے اور خواجہ سرائوں کے کوٹے کے حوالے سے معلومات کے حصول کیلئے دائر کی گئی تھیں۔
شہریوں نے سرکاری اداروں کی آڈٹ رپورٹس اور حتمی آڈٹ پیراز تک رسائی کیلئے بھی درخواستیں دائر کیں۔ اس کے علاوہ، پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے متعلق معلومات، ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی فہرست کے حصول، نادرا کی جانب سے خواتین کو جاری کردہ شناختی کارڈز کی تعداد کی معلومات، ملک میں خواجہ سرائوں کی مجموعی تعداد کی معلومات اور ملک میں معذور افراد کی تعداد جاننے کیلئے بھی درخواستیں دائر کی گئیں۔ اس کے علاوہ ججوں اور افسران کے اثاثہ جات، ان کی تنخواہوں، مراعات اور سہولتوں، اور سول اور فوجی افسران کو ملنے والی تنخواہوں و سہولتوں کی معلومات جاننے کیلئے بھی درخواستیں دائر کی گئیں۔