اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر سماعت کی۔ مریم نواز کے وکیل عرفان قادر عدالت کے سامنے پیش ہوئے جسٹس عامر فاروق نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا
ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گااگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اگر باپ نے غلط طریقے سے بھی رقم بنائی ہو اور وہ بیٹی کو تحائف دیتا ہے تو کون سے قانون کے تحت بیٹی مجرم قرار پائے گی؟ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے ہم نے دیکھنا ہے نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں، آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں، نیب کی جانب سے عثمان غنی چیمہ، سردار مظفر و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔عرفان قادر نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ عدالت نے نیب سے کچھ سوالات پوچھے تھے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب نے مریم نواز کی درخواست پر جواب جمع کروا دیا تھا جس پر عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ نیب پراسیکیوٹر کو کورونا ہو گیا تھامیں نے نیب کا جواب پڑھ لیا ہے عدالتی کارروائی کو ریگولیٹ تو عدالت نے کرنا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ مریم نواز کی درخواست پر نیب کا جواب آ گیا ہے اب کارروائی آگے کیسے بڑھائی جائے جس پر وکیل صفائی نے بتایا کہ میں اپنے باقی دلائل شروع کر دیتا ہوں اسکے بعد نیب دلائل دے،میں بیک گراؤنڈ بتانا چاہتا ہوں کہ کس sequence میں یہ معاملہ چل رہا تھا
میں نے عدالت سے کہا تھا کہ ضرورت ہوئی تو مزید دلائل بھی دوں گااس پروسیڈنگ کو عدالت نے ریگولیٹ کرنا ہے، عدالت نے کہا کہ آپ تجویز دیں کہ سماعت کو کس طرح آگے بڑھایا جائے؟ جس پر عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ میں مزید دلائل کا آغاز کرتا ہوں جو مکمل ہونے پر نیب کو موقع دیا جائے،میری کوشش ہو گی کہ وہ باتیں
نہ دہراؤں جو پہلے دلائل میں بیان کر چکا ہوں، اس موقع پر نیب نے خاتون وکیل کے روسٹرم پر دلائل کے دوران کھڑے ہونے پر اعتراض کیا،عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے اجازت دی ہے؟ آپکا وکالت نامہ کس کی جانب سے ہے؟آپ نے ایک بیان دیا کہ آپ نیب کی جانب سے ہے، اگر غلط بیانی کی تو بار کونسل کو آپکا کیس
جائے گا،عدالت نے خاتون وکیل کلثوم خالق کو ڈی جی نیب سے نیا وکالت نامہ لانے کی ہدایت کی، اس موقع پر عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ 561 اے کی درخواست پورے پراسس پر سوال اٹھاتی ہے،میری درخواست میں ساری تفصیلات موجود ہیں ان پر نہیں جاؤں گا کیا آج ہماری جوڈیشری سے وہ غلطیاں نہیں ہوئیں جو ماضی میں
ہوتی رہیں،17 نومبر کو عدالت نے نیب کے سامنے جو سوالات رکھے تھے ان پر دلائل دوں گا،درخواست کا مکمل متن ٹرائل کے دوران abuse of process of court سے متعلق ہے،کیا آج کی جوڈیشری سے وہ غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں جو پہلے کی جوڈیشری سے ہوئیں ماضی میں ایسے کیسز عدالتی تاریخ میں متنازعہ رہے ہیں،نیب
نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں،اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے، اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے،نیب آرڈیننس کی سیکشن نائن اے 5 کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، پاکستان میں حکومتیں ختم کرنے کے لیے تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، پانامہ کیس
عمران نیازی بمقابلہ نواز شریف تھا،نواز شریف کو بطور وزیراعظم ہٹایا گیا جس کے بعد عمران خان کی حکومت بنی،نواز شریف کو ہٹانے کے لئے آئینی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر ہوئی؟ جس پر وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے
لکھ دیا تھا کہ عدالتی آبزرویشنز سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا،انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں میں بالکل نہیں چاہوں گا کہ چیزوں کو خواہ مخواہ اچھالا جائے،اگر ہمیں انصاف مل جاتا ہے تو ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جائیں گے۔جسٹس عامر فاروق نے پوچھا ہم نے دیکھنا ہے کہ ملزمان کے خلاف شواہد یا شہادتیں موجود ہیں یا نہیں؟عدالت نے صرف
اسی بنیاد پر سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنا ہے۔ عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ واحد پہلو ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں،اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور، حج انتظامات میں بدانتظامیوں سمیت دیگر کیسز بھی تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کو بھجوائے۔عرفان قادر
نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے ان دیگر کیسز میں مانیٹرنگ جج نہیں بنائے،عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی آبزرویشنز کو سپروائز کیا،جے آئی ٹی کی تشکیل کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے اس موقع پر عدالت نے کہا کہ انوسٹی گیشن اور ٹرائل کی خامیوں کی آپ نے نشاندہی کرنی ہے اور ہم نے اسے
جانچنا ہے،جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ نیب نے اس کیس میں تفتیش ہی نہیں کی تو پھر ریفرنس کیسے دائر کیا؟میں چاہتا ہوں کہ عدلیہ مضبوط ہو، عدلیہ کو انڈر مائن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، میں نے بات شروع کی تھی کہ حکومتوں کو گھر بھجوانے کے تین طریقے ہیں،حکومت کو گھر بھجوانے کا پہلا طریقہ مارشل لا اور دوسرا صدر
پاکستان کے ذریعے گھر بھجوانے کے لیے استعمال ہوااس موقع پر عدالت نے کہا آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں، آپ نے نیب شواہد پر بات کو اپنے دلائل میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے،آپ اس پوائنٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں آپ پہلے یہی دکھا دیں کیس نہیں بنتا تھا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی اس موقع پر عدالت نے مریم نواز کے وکیل کو جج محمد بشیر کا نام لینے سے روک دیا،آپ
نے کہنا ہے تو ٹرائل کورٹ میں کہیں جج کا نام نہ لیں جس پر عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ ایک لیٹر کو ٹرائل کورٹ نے بنیادی شہادت کے طور پر لیا،ایک ایم ایل اے کے جواب میں آیا خط بنیادی ثبوت ہے،احتساب عدالت نے کہا مریم نواز اب اس لیٹر کے جواب میں اپنا ثبوت لائیں کیا یہ ایم ایل اے ریکارڈ پر موجود ہے؟ جس پر عدالت نے کہا کہ جی ہاں ایم ایل اے ریکارڈ پر تو موجود ہے کیس کی سماعت 17 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔