بھارت اور کینیڈا میں ججز کو مستعفی ہونا پڑا، فیصلے میں قرآن پاک کی سورہ النساء کا حوالہ، اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس و پیش نہیں کر سکتے، جسٹس فائز کیس کا اختلافی فیصلہ

5  فروری‬‮  2022

اسلام آباد (مانٹیرنگ، این این آئی)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دائر نظر ثانی کی درخواستیں خارج کرنے والے چارفاضل ججوں کا 100 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کر دیا ہے،اس فیصلے میں عدالت کا 19جون 2020 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی کی تمام درخواستیں خارج کردی گئیِں۔یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال،

جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین کی رائے پر مبنی ہے،اختلافی فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جبکہ 13 صفحات پر مشتمل جسٹس منیب اختر کااضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے۔اس فیصلے میں قرآن پاک کی سورۃ النساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس وپیش نہیں کرسکتے، ایک جج بھی دیگر افراد اور سرکاری عہدیداروں کی طرح اپنی غلطی اور کوتاہی کیلئے قابل احتساب ہوتا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت آئی، جس میں جسٹس فائز کیخلاف آنیوالے مواد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی جانب سے وضاحت دینا لازمی ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق نہ ہونے کی دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں،جسٹس فائز عیسیٰ بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں، بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو تجارت یا کاروباری معاملات میں ملوث ہونے پر انکوائری کے بعد مستعفی ہونا پڑا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا اور انہیں اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بینچ نے 26 اپریل 2021 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا جو چھ، چار کے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں دیا گیا تھا۔45 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ

جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی

قانون سے بالاتر نہیں، دوسری طرف کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جج سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، عدلیہ کا احتساب ضروری ہے تاہم ہونا قانون

کے مطابق چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑے بڑے عہدوں پر موجود افراد کے خلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں، اس عدالت کے جج سمیت کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا

گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدے یا پوزیشن کے ہر پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا

تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، جبکہ ٓائین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کے معاملات کا

184/3 سے کوئی تعلق نہیں، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے، جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے،

جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آسکتی تھی لیکن برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔

موضوعات:



کالم



گوہر اعجاز سے سیکھیں


پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…