جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بھارت اور کینیڈا میں ججز کو مستعفی ہونا پڑا، فیصلے میں قرآن پاک کی سورہ النساء کا حوالہ، اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس و پیش نہیں کر سکتے، جسٹس فائز کیس کا اختلافی فیصلہ

datetime 5  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانٹیرنگ، این این آئی)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دائر نظر ثانی کی درخواستیں خارج کرنے والے چارفاضل ججوں کا 100 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کر دیا ہے،اس فیصلے میں عدالت کا 19جون 2020 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی کی تمام درخواستیں خارج کردی گئیِں۔یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال،

جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین کی رائے پر مبنی ہے،اختلافی فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جبکہ 13 صفحات پر مشتمل جسٹس منیب اختر کااضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے۔اس فیصلے میں قرآن پاک کی سورۃ النساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس وپیش نہیں کرسکتے، ایک جج بھی دیگر افراد اور سرکاری عہدیداروں کی طرح اپنی غلطی اور کوتاہی کیلئے قابل احتساب ہوتا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت آئی، جس میں جسٹس فائز کیخلاف آنیوالے مواد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی جانب سے وضاحت دینا لازمی ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق نہ ہونے کی دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں،جسٹس فائز عیسیٰ بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں، بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو تجارت یا کاروباری معاملات میں ملوث ہونے پر انکوائری کے بعد مستعفی ہونا پڑا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا اور انہیں اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بینچ نے 26 اپریل 2021 کو مختصر فیصلہ سنایا تھا جو چھ، چار کے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں دیا گیا تھا۔45 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ

جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ واضح الفاظ کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی

قانون سے بالاتر نہیں، دوسری طرف کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کا جج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جج سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، عدلیہ کا احتساب ضروری ہے تاہم ہونا قانون

کے مطابق چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑے بڑے عہدوں پر موجود افراد کے خلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں، اس عدالت کے جج سمیت کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا

گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اگر کوئی شہری پبلک آفس ہولڈر ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدے یا پوزیشن کے ہر پاکستانی قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا

تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، جبکہ ٓائین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کے معاملات کا

184/3 سے کوئی تعلق نہیں، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے، جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے،

جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آسکتی تھی لیکن برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…