لاہور(این این آئی) مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ 73کا آئین متفقہ آئین ہے اگرآئین سے باہر نکلیں گے تو ملک کسی اور بحرانی کیفیت کی طرف چلا جائے گا، یہاں پینتیس سال صدارتی نظام رہا ہے اورسارے اختیارت ایک شخص کے پاس تھے کوئی پارلیمنٹ نہیں تھی کسی کی کوئی اوقات نہیں تھی اگر بھلائی ہونی ہوتی تو اس دوران ہو جاتی،
کورونا وباء کے دوران غیر ملکی امداد کی مد میں آنے والی رقوم میں سے ایک ارب روپے سیاسی مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے اور گالی گلوچ بریگیڈ کو دئیے گئے اور ہم اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھا رہے ہیں، نواز شریف نے جب واپس آنا ہوا تو حتمی تاریخ کا اعلان خود کریں گے مجھے یا کسی اور کو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ جہاں پر عدالتیں قائم کی گئی ہیں وہاں نہ کسی ملزم کے کھڑے ہونے کیلئے جگہ ہے اور نہ ججز مناسب طریقے سے اپنا کام کر سکتے ہیں ۔ حکومت کو کسی چیز کا دھیان نہیں ہے، اس کی ساڑھے تین چار سال سے ایک ہی پالیسی گھٹیا انتقام لینا ہے، جتنے یہ اپنی سوچ میں اور اپنی فطرت میں گھٹیا ہیں اتنا ہی گھٹیا انتقام سیاسی مخالفین اور اپوزیشن سے لے رہے ہیں، مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں، شہزدا اکبر اور دوسرے ترجمان ججز کو دباؤ میں لانے کے لئے روز پریس کانفرنس کرتے ہیں۔یہ قوا نین میں ترامیم لا رہے ہیں، ایک ترمیم یہ لارہے ہیں کہ اگر نو ماہ میں ایک کیس کا فیصلہ نہ ہو تو اس پر جج سے پوچھا جائے گا کہ فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ فروغ نسیم جو طاغوتی طاقتوں کے بڑے پرانے ایجنٹ ہیں ان کی پریکٹس انہی کاموں میں گزری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب لاہور میں دہشتگردی ہوئی تومعلوم نہیں ہورہا تھاکہ کتنے لوگ شہید اور کتنے زخمی ہیں لیکن اس وقت ملک کا وزیر اعظم کا کیا کر رہا تھا۔جب دھماکہ ہوا تو اس وقت وزیراعظم اپنے گالی گلوچ بریگیڈ کو لے کر وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے،اتنی پابندی سے کوئی اور میٹنگ نہیں ہوتی جس طرح یہ ہوتی ہے۔
وزیراعظم خود بتاتا ہے کس طرح گالیاں دینی ہیں کس طرح سکینڈالائزکرنا ہے،ان کی تربیت کی جاتی ہے ان کو سمجھایا جاتا ہے، سیاسی مخالفین کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والوں اور جو ترجمان سیاسی ایجنڈا پورا کرتے ہیں انہیں کورونا وباء کی مد میں بیرون ممالک سے جو امداد آئی اس میں سے پیسے دئیے جاتے ہیں۔ انہوں نے الزام
عائد کیا کہ اس میں سے ایک ارب روپے ان لوگوں میں میں تقسیم کیا گیا او رہم اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قوم مہنگائی میں مر رہی ہے، معیشت کوآئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے، اگر ادویات کا بحران ختم ہوتا ہے تو چینی کا شروع ہو جاتاہے وہ ختم ہوتا ہے تو آٹے کا آجاتا ہے وہ ختم ہوتا ہے تو
پیٹرولیم کا شروع ہو جاتا ہے، ہر وقت پوری قوم بحرانی کیفیت میں کیوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے، وزیر اعظم ایک ہی کام کر رہے ہیں،انہوں نے ملک کی تباہی کی، کرپشن کر کے ملک کو لوٹا ہے،انشا اللہ اب ان کا حساب ہونے کا وقت آیا جاتا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے صدارتی نظام کے حوالے سے سوال
کے جواب میں کہا کہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں واضح ہیں کہ 73کا آئین متفقہ آئین ہے، اس پرچاروں اکائیاں متفق ہیں،یہ قومی اتفائے رائے سے بنا ہوا آئین ہے اور اگر اس سے باہر نکلیں گے اورقومی اتفاق رائے نہ ہوا تو ملک کسی اور بحرانی کیفیت کی طرح چلا جائے گا۔ یہاں پینتیس سال صدارتی
نظام ہی رہا ہے،دس سال ایوب رہا،چار سال یحی،گیارہ سال ضیاء الحق اورنو دس سال مشرف رہا یہ کون تھے صدر ہی تھے،سارے اختیارت ایک کے پاس تھے کوئی پارلیمنٹ نہیں تھی کسی کی کوئی اوقات نہیں تھی اگر بھلائی ہونی ہوتی تو اس دوران ہو جاتی اورملک آج آگے تک پہنچ چکا ہوتا۔ ملک کا مسئلہ پارلیمانی یاصدارتی نظام نہیں،بلکہ
اصل مسئلہ آئین پر عمل نہ ہونا ہے، چوہتر سالوں میں آئین پر عمل نہیں ہوا، آئین کو بار بار توڑا گیا،پچیس سال تو آئین بنایا ہی نہیں گیا اور اگر ملک کو نصیب ہو گیا او ربلا شبہ یہ کارنامہ ذوالفقار علی بھٹو اور باقی اکابرین کا ہے جنہوں نے قوم کو متفقہ آئین دیا،اگر اس آئین پر عمل ہوتا ہے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرتے تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا۔کوئی نظام بدلنے کی ضرورت نہیں بلکہ آئین میں پابندی اور عمل
کرنے سے ہی ملک کی بہتری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نواز شریف کا ملک ہے،راناثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کی نااہلی 30 میں ختم ہو جائے گی، یہاں کے لوگوں نے انہیں تین مرتبہ بطور وزیر اعظم منتخب کیا ہے،بے پناہ عزت او رپیار دیا ہے وہ بھی اپنے ملک اور قوم سے پیار کرتے ہیں،وہ ضرور آئیں گے،انہوں نے جب آنا ہوا وہ تاریخ کا اعلان خود کریں گے،اس کا اعلان مجھے یا کسی اور کو کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی،شیڈا ٹلی صاحب کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔