لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صد رمریم نواز نے کہا ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ لینے کے جرم میں عمران خان فوری استعفیٰ دیں ، جس طرح ہمارے لئے جے آئی ٹی بنی اب بھی سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جائیں اور حقائق قو م کے سامنے آنے چاہئیں،الیکشن کمیشن کی رپورٹ نے عمران خان کے چہرے سے بچا کھچا نقاب بھی اتار دیا ہے ،
جسٹس (ر) ثاقب نثار نے یک ایسے شخص کوصادق اور امین کاسرٹیفکیٹ تھما دیا جس کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے ، ایسے اشخص کو سرٹیفکیٹ دیا گیا جس کا بال بال کرپشن جھوٹ اورغلط بیانی میں ڈوبا ہوا ہے ، ثاقب نثار سے پوچھنا چاہتی ہوں آج آپ کا صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ کہاں سٹینڈ کرتا ہے جب پوری دنیا تھو تھو کر رہی ہے ،آج ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیںاورسب کا ذمہ دار عمران خان اور اسے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دینے والا جسٹس (ر) ثاقب نثا ر ہیں،اب الیکشن کمیشن کا بھی امتحان ہے ، بال انصاف کرنے والے اداروں کے کورٹ میں ہے ،عوام حکومت سے اس قدر متنفر ہیں کہ اپوزیشن کو بھی قصور وار قرار دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کیوںکچھ نہیں کر رہی ، اپوزیشن کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سر جوڑ بیٹھ کر بیٹھے تاکہ عوام کی شکایات کا ازالہ ہو اور یہ جتنی جلدی ہو ہونا چاہیے ،ڈیل کی ضرورت انہیںہوتی ہے جن کی جڑیںعوام کے اندر نہ ہوں ، ہمیں کسی ڈیل کی ضرورت نہیں ، مسلم لیگ (ن) صرف صاف اور شفاف الیکشن چاہتی ہے،عمران خان جواب دینے کی بجائے اپنی جماعت کو کہہ رہے ہیں کہ میر اجو برانڈ ہیں اسے اپنایا جائے ، برانڈ تو آپ کا بن چکا ہے ہے،آپ کا برانڈ نا لائقی، نا اہلی ، کرپشن ، جھوٹ ، سازش ، لوٹ مار ، ہوشربا مہنگائی، بیروزگاری، غیر ملکی غیر قانونی فنڈنگ کامجرم ہونا آپ کا برانڈ ہے ،
عوام کی روٹی چھیننے کا جرم، حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہونا یہ آپ کا برانڈ ہے اور یہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر شاہد خاقان عباسی،رانا ثنا اللہ ، پرویز رشید، مریم اورنگزیب بھی موجود تھے۔ مریم نواز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جو
رپورٹ آئی ہے اس میںہوش ارا دینے والے حقائق شامل ہیں ،اس رپورٹ نے عمران خان کے چہرے پر جوبچا کھچا نقاب تھا وہ بھی کھینچ دیا ہے اور اس نے عمران خان کا چہرہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں بھی بے نقاب ہو گیا ہے ۔ رپورٹس میں جوانکشاف ہیں اس سے قوم کا دماغ چکر ا کر رہ گیا ہے ۔ اس میںکوئی دورائے اورکوئی شک
نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے اندر کسی سیاسی جماعت ، کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف یا کسی لیڈر پر الزامات کے اس طرح ناقابل تردید ثبوت سامنے آئے ہیں،پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی نے ایسا نہیں دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جواب دینے کی بجائے اپنی جماعت کو کہہ رہے ہیں کہ میر اجو برانڈ ہیں اسے اپنایا
جائے ، برانڈ تو آپ کا بن چکا ہے ہے،آپ کا برانڈ نا لائقی، نا اہلی ، کرپشن ، جھوٹ ، سازش ، لوٹ مار ، ہوشربا مہنگائی، بیروزگاری، غیر ملکی غیر قانونی فنڈنگ کامجرم ہونا آپ کا برانڈ ہے ، عوام کی روٹی چھیننے کا جرم، حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہونا یہ آپ کا برانڈ ہے اور یہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ جس طرح آپ بھاگتے رہے
ہیں ،راہ فرار اختیار کرتے ہیں وہ موقع اب آپ کو نہیں ملے گا ۔ انہوںنے کہا کہ تحریک انصاف کے 26مجموعی اکائونٹس تھے جو اسٹیٹ بینک کے مطابق ہیں ، یہ میر ے یامسلم لیگ (ن)کے حقائق نہیں،ان میں سے18اکائونٹس فعال تھے ،باقی اکائونٹس کے بارے میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹ بولا بلکہ تحقیقات کو
سبوتاژ کو کرنے کی بھی کوشش کی ۔عمران خان نے رپورٹ آنے کے بعد اس کا خیر مقدم کیا اور ان کے وزراء نے بیانات دئیے کہ ہم سرو خرو ہوئے ہیں۔ آپ سات سال بھاگتے کیوں رہے ،طاقت ، دھونس کا استعمال کر کے اس کیس کو آگے بڑھنے سے کیوں روکا ، جب نا گزیر ہو گیا کہ حقائق سامنے آئیں گے تو پھر آپ نے رپورٹ ریلیز نہ
کرنے کی کوشش کی اوردھونس اور طاقت سے دبائو ڈالا کہ رپورٹ نہ ریلیز کی جائے ،آپ نے الیکشن کمیشن کی حدود کو چیلنج کر دیا ،اس تاخیری حربے سے بھی بات نہ بنی ،آپ کبھی ایک بہانہ ، کبھی دوسرا اور کبھی تیسر ابہانہ تراشتے رہے، آپ نے چوری نہیں کی تھی تو تلاشی کیوں نہیںدے رہے تھے،تلاشی نہ دینے والے تو وہ لوگ
ہیں جنہوں نے جرم کیا ہو ۔آپ نواز شریف کی طرح سینہ تان کر تلاشی دیتے ،آپ کی زبردستی تلاشی لی گئی اور آپ کا بال بال چوری ،جھوٹ اورسازش میں ڈوبا ہوا نکلا ۔ آپ نے رپورٹ پبلک کرنے سے روکنے کے لئے دبائو ڈالے رکھا ۔ آپ کو امریکہ ،مڈل ایسٹ، آسٹریلیا، کینیڈا اورانگلینڈ سے فارن فنڈنگ ملی،آپ نے 2010اور2013ء
کے درمیان ٹیکساس او رکیلیفورنیا میںدو کمپنیاں بنائیںاور عمران خان خود دونوں کمپنیز کے چیئرمین تھے ، کچھ کمپنیز آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی تھیں اورعمران خان ان کے بھی چیئرمین تھے ، یہ عمران کان کے ذاتی نوٹس میں تھا ان کی مرضی اور کہنے سے ہوا ۔ اس رپورٹ کے مطابق آپ نے نہ صرف جھوت بولا بلکہ مس ڈیکلریشن
کے ذریعے حقائق کو چھپایا اور جھوٹے سرٹیفکیٹ جمع کرائے اور سب عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا او رپھر بات یہی ختم نہیں ہوتی ، پی ٹی آئی کی جماعت کے جو ذاتی چار ملازم تھے ان کے نام پر غیر قانونی طو رپر پیسے منگوائے ، چار ملازمین کے نام پر غبن کیا گیا ، وہ پیسے ذاتی ملازمین کے اکائونٹس میں منگوائے گئے ،عمران
خان پرنسپل سگنیٹری ہیں،عارف علوی کا بھی کردار ہے ۔ آپ نے جھوٹے ، فیبری کیٹڈ سرٹیفکیٹس جمع کرائے ۔آپ آج تک جھوٹ بولتے آرہے ہیں ،کس سے پیسے لئے کون سے ملک سے پیسے لئے کس غیر ملکی کمپنی سے پیسے لئے آج تک وضات نہیں کی ، آپ نے کس ملک سے او رکمپنی سے پیسہ لیا او ر کہاں خرچ کیا اس بات کا
جواب دینا پڑے گا ۔ آپ ایک ایک طرف غیر قانونی فنڈنگ اکٹھی کر رہے تھے اور دوسری طرف آپ 2014ء میں ایک منتخب حکومت کو ہٹانے کے لئے کنٹینر استعمال کر رہے تھے، آپ وہی پیسہ چھپا کر منگوا رہے تھے ،آپ کو اس کا حساب دینا پڑے گا کہ آپ نے منتخب حکومت کے خلاف یہ پیسہ خرچ کیا ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کا قانون
کہتا ہے کہ کوئی بھی جماعت غیر ملکی کمپنی سے فنڈنگ نہیں لے سکتی،اگر آپ غیر ملکی کمپنی سے پیسے لیتے ہیں تو اس جماعت کو کالعدم قرار دیدیدا جاتا ہے ،تحلیل کر دیا جاتا ہے ،آپ نے غیر ملکی کمپنی سے پیسے لئے،کرکٹ کلب سے 2.1ملین ڈالر آئے ،یہ ابراج گروپ والے تھے جن پر ایک بین الاقوامی کیس چل رہا ہے ، ا ن
سے کہا گیا کہ آپ کسی جاننے والے کا رابطے کا نمبر دیں تو انہوںنے عمران خان کا نمبر دیا، انہوں نے ہی لاکھوں ڈالر دئیے اور آپ غیر قانونی پاکستان لے کر آئے ،آپ نے اپنے ڈونرز ممتاز احمد جنہوںنے ہزار وںڈالرز دئیے اور اس کے بدلے رشوت کو ڈونیشن کا نام دیا، یہ سب سے مجرمانہ فعل ہے جو آپ نے کیا ہے ، آپ نے 24ہزار ڈالر
لئے او راس کے بدلے نتھیا گلی میں ہوٹل بنانے کا لاکھوں ڈالر کا کنٹریکٹ دیا ،آپ نے اپنی حکومت میں خصوصی پوزیشن بھی دی ۔ آپ کو کس نے یہ حق دیا کہ آپ عوام کے پیسے سے کسی کو رشوت کا نعم البدل دیں،یہ اتنی بڑی چوریاں ہیں اور جودیدہ دلیری اور سینہ زوری کی گئی اورجھوٹ بولا گیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال
نہیںملتی ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں کیا سنایا جاتا تھا ،بار ہا مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ، کالے کرتوتوںکو چھپانے کے لئے مذہب کا لبادہ اوڑھا جاتا تھا، حضرت عمر کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں قصے کوڈ کئے جاتے تھے ،بار بار ریاست مدینہ کا ذکر کیا جاتاتھا، عمران خان کہتے تھے کہ طاقتور قانون کے نیچے ہوگا تبھی اس ملک میں تبدیلی
آئے گی ۔ آپ نے اپنی طاقت دھونس اور دھاندلی کا استعمال کرتے ہوئے سات سال رپورٹ کو روکے رکھاکہ الیکشن کمیشن اس پر آگے نہ بڑھے اور رپورٹ ریلیز نہ کرے ۔آپ کے پاس طاقت آئی تو آپ نے اس کے لئے اسے استعمال کیا ۔انہوںنے کہا کہ ہر کسی نے اپنا جواب دیا ، نواز شریف نے تین نسلوں ، میں نے نا کردہ گناہوں کا جواب
دیا ،میر ے آس پاس جوبیٹھے ہیں اور باقی جماعوں کے لوگ ہیں انہوںنے آپ کا انتقام سہا ،آپ کو سرخاب کے پر لگے ہیں کہ آپ طاقت کا استعمال کر کے احتساب سے نکل جاتے ہیں،بی آر ٹی کا آج بھی احتساب کرنے کی اجازت نہیں ہے اور آپ سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے غیر ملکی تحفے لئے اور کہا میں جواب نہیں
دوں گا جو کرنا ہے کر لو ۔آپ نے مافیاز کی سرپرستی کر کے ان سب کو نوازا ہے ،آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے مافیاز ہیں جن کی آپ سرپرستی کرتے ہیں، آپ نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں اور عوام بھگتے رہے ، انہی کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آیا ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے یک ایسے شخص کوصادق اور
امین کاسرٹیفکیٹ تھما دیا جس کی حقیقت آج آشکار ہو چکی ہے ، ایسے اشخص کو سرٹیفکیٹ دیا گیا جس کا بال بال کرپشن جھوٹ اورغلط بیانی میں ڈوبا ہوا ہے ، ثاقب نثار سے پوچھنا چاہتی ہوں آج آپ کا صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ کہاں سٹینڈ کرتا ہے پوری دنیا تھو تھو کر رہی ہے ۔ 22کروڑ عوام کی حکمرانی ایسے شخص کو دیدی
جس نے اتنے بڑے بڑے فراڈ کئے او رطاقت کے نیچے دبایا ہوا تھا،ملک کو اس کے حوالے اور رحم و رکم پر چھوڑ دیاگیا جس نے چوری کی ، کرپشن کی فراڈ کیا اوراپنے گناہوں کو چھپایا ،اپنے دوستوں کے گناہوں کو چھپایا ، اس کے گناہوں کی فہرست یہاں پر ختم نہیں ہوتی ،آج ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیںاورسب کا ذمہ دار
عمران خان اور اسے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دینے والا جسٹس (ر) ثاقب نثا ر ہیں۔مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)مطالبہ کرتی ہے اور اپوزشن کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ عمران خان جھوٹ بولنے کے جرم ، لوگوں کے پیسے اینٹھنے ، غیر قانوجی فنڈنگ لینے او راسے چھپائے رکھنے کے جرم میں فوری مستعفیٰ ہوں، ان کے خلاف
جھوٹ بولنے ، مس ڈیکلریشن پران کی جماعت کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ،جن چار ملازمین کے نام پر پیسہ آیا ان کے خلاف بھی تحقیقات او رکارروائی ہونی چاہیے اور سارے حقائق قوم تک سامنے آنے چاہئیں،یہ بتایا جائے کہ کون سی کمپنی اور کس غیر ملکی شخص سے پیسہ آیا اور کہاں خرچ ہوا ، پی ٹی آئی کے ظاہر کئے گئے اور
ظاہر نہ کئے گئے اکائونٹس اور ان کی فنڈنگ سامنے آنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف تو جی آئی ٹی بن گئی تھی ،ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ہونی چاہیے اور جس طرح ہم نے بھگتا ہے اس طرح عمران خان کا کیس بھی روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے ۔ہمارے اوپر تو کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اوراقامہ نکل
آیا ، یہ الیکشن کمیشن کا بھی امتحان ہے ، رپورٹ کا اجراء کرنے پر الیکشن کمیشن شابا ش اور تحسین کا مستحق ہے کہ اس نے کوئی دبائو کو نہیںلیا ،جب ادارے ایسے کریں گے توملک آگے بڑھے گا ، طاقت کو مزاحمت سے روکنا کافی نہیں ہے بلکہ قانون کا جو کام ہے مجرم کو کٹہرے میں لایا جائے اور اسے آئین و قانون کے مطابق سزا
ملے ۔الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق جو سزا بنتی ہے وہ عمران خان او ران کی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کوملنی چاہیے اور اب الیکشن کمیشن کا اامتحان ہے ، یہ انصاف دینے والے اداروں ، عدلیہ کا بھی امتحان ہے ہے ،جو نواز شریف کے وقت متحرک تھے اور سب کو دوڑ دوڑ کر ہو رہا تھا، اب عمران خان مجرم ثابت ہو چکے ہیں
اور ہم انصاف کے منتظر ہیں، وقت آ گیا ہے کہ آئین و قانون کا بول بالا ہو ، قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ نا قابل تردید ثبوت آ چکے ہیں ،اب انصاف دینے والے ادارے کیا ایکشن لیتے ہیں ،الیکشن کمیشن کیا ایکشن لیتا ہے ، یہ ہماری خواہش نہیں بلکہ ہم قانون کے مطابق مطالبہ کر رہے ہیں، اب بال قانون او رانصاف اداروں کے کورٹ میں ہے۔مریم
نواز نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ساری اپوزیشن کو اس پر نہ صرف احتجاج کرنا چاہیے بلکہ ہمار ا فرض ہے کہ ہم اتنے بڑ ے غبن اور جو جھوٹ بولے گئے انہیںقوم کے سامنے اور رکھیں اور جو انصاف دینے والے ادارے ہیں سب ان سے سوال کریں ، الیکشن کمیشن سے سوال کریں کہ قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے ۔ اگر نواز شریف
اڈیالہ جیل،کوٹ لکھپت جیل ،نیب میں رہ سکتے ہیں ، ان کی بیٹی رہ سکتے ہیں ،پارٹی رہنما رہ سکتے ہیں تو جو ثابت شدہ مجرم ہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ انشااللہ نواز شریف واپس آئیں گے لیکن وہ کس وقت آئیں گے کس وقت واپس آنا ان کے لئے محفوظ ہے ی مسلم لیگ (ن) خو دطے کرے گی ۔انہوںنے کہاکہ
پہلے مجھ سے معذرت کی جائے کہ میرا فون کیوں ٹیپ کیا گیا ،میری ذاتی اور نجی گفتگو تھی کس کو حق تھا کہ وہ اسے ٹیپ کرے ،وہ ٹیپ ایک میڈیا چینل کو دی گئی اس نے کیوں آن ائیر کی اس پر معذرت کی جائے ۔ میں نے اورپرویز رشید نے ذاتی گفتگو کی ،ہم کیا بات کرتے ہیں اس پر کوئی جواب نہیں دینا ، جواب اس بات کا چاہیے کہ
پاکستان کی شہری ،خاتون کی گفتگو کیوں ٹیپ ہوئی او رپھر حکومتی وزراء کو ملی اور ایک چینل کو ملی ، پہلے اس کا جواب دیا جائے پھر آگے بات کروں گی۔انہوںنے کہا کہ جو آج قدرت نے انصاف کر دیا ہے اس سے بڑا کیا انصاف ہوگا ، آج دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہوا ہے ، نا انصافی کرنے والے خود بول پڑے ہیں ،انصاف یہ ہوتا
ہے ، انصاف ہو چکا ہے ۔ اب پاکستان کے انصاف کرنے والے ادرے کب اپنے اوپر لگے دھبے دھوئیں گے، مجھے امید ہے کہ جتنی بھی عدالتیں ہیں ججز ہیں وہ ضرور اس کو دیکھیں گے ،گناہگا رکو سزا ملنی چاہیے کیونکہ اس میں کچھ ثابت ہونے کی ضرورت نہیں ، جن بے گناہوں کو سزا دی گئی اس کا ازالہ کیسے کرنا ہے اسے دیکھا
جائے۔انہوںنے کہا کہ نواز شریف ا س لئے لندن گئے تھے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ تھا ، نیب میں ان کی صحت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس میں سے کچھ میرے علم میں ہیں ، انہوںنے نواز شریف کی صحت کو ایک ایسی جگہ تک پہنچا دیا تھا کہ ان کی زندگی کا پتہ نہیں تھا ، نواز شریف کسی ڈیل کی نتیجے میں باہر گئے ۔انہوںنے کہا کہ ہم
مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے رہیں ہیں اور بہت پرزور احتجاج کئے ہیں ،عوام کا حکومت سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ اپوزیشن کو بھی قصور وار قرار دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ نہیں کر رہی ، اپوزیشن کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سر جوڑ بیٹھ کر بیٹھے تاکہ عوام کی شکایات کا ازالہ ہو اور یہ اور جتنی جلدی ہو ہونا چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ ایاز صادق نے جو بات کی ہے مجھے اس کا پتہ نہیںہے ، مجھے نہیںپتہ ان
کا اشارہ کس کی طرف تھا۔مریم نواز نے کہا کہ ڈیل کی ضرورت انہیںہوتی ہے جن کی جڑیںعوام کے اندر نہ ہوں اور وہ لوگ ڈیل کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں ، سارے ضمنی انتخاب دیکھ لیں عوام کا رخ کس طرف تھا ،آج ہر کسی کو (ن)لیگ ،نواز شریف اور شہباز شریف کی یاد آرہی ہے ،لوگ آواز دے رہے ہیں،لوگ دوبارہ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں ، ہمیں کسی ڈیل کی ضرورت نہیں ہے ، مسلم لیگ (ن) صرف صاف اور شفاف الیکشن چاہتی ہے ، ہمیں اللہ کے بعد عوام پر بھروسہ ہے۔