لاہور ( آن لائن ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے ہے کہ عدالتوں میں ہونے والے حالیہ واقعات کو روکنے کیلئے پنجاب بار کونسل کو مبارکباد پیش کر تا ہوں ۔ وکلاء برادری کا کام ججز کی معاونت کرنا ہو تا ہے لیکن وہ اپنا کام کرنے کی بجائے جج سے بدتمیزی کرتے ہیں، یہ وکیل کے کام کے خلاف ہے کہ وہ جج سے بدتمیزی کریں، نازیبا زبان، اور ان پر تشدد کریں،
وکلااورججوں کے درمیان جھگڑوں کا کوئی جوازنہیں، لاہور میں وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وکیل کو پتہ ہونا چاہئے کہ عدالت میں کس طرح پیش ہونا چاہئے وکیل کو صاحب قانون سمجھا جا تا ہے وکلاء نے شاید پڑھنا چھوڑ دیا ہے نئے وکیلوں کا پتہ ہو نا چاہے کہ کیرئیر میں کیسے آگے بڑھنا ہے پرتشد د واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے کسی کیس کے فیصلے میں کوئی مشکل ہے تو بتائیں لیکن ایک جج کے سامنے بدتمیزی اور نازیبا الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے ، بارکو نسل اور بار ایسو سی ایشن کو وکلاء کی تربیت ضرور کرنی چاہئے، وکلاء اور جج ایک دوسرے کے حریف ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسل جب وکیل کو انرول کرے تو اسے باقاعدہ کوڈ آف کنڈکٹ پڑھانا چاہیے، وکلا اور عدالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے کہ کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے، وکلا نے عدالت کی حفاظت کا کام کرنا ہوتا ہے، جج کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے ، فیصلے پر تبصرہ ہو سکتا ہے لیکن اس پر جھگڑا نہیں کر سکتے، وکیل اور جج کے درمیان ٹینشن نہیں سمجھ آتی کیسے ہوتی ہے ، یہ نہیں ہونی چاہیے۔عدلیہ کا کوئی رجحان نہیں ہوتا ،ایسا نہی کی سردی آئی تو ججز سردی والے فیصلے دے دیں، عدالتیں آزاد ہیں آزاد رہیں گی اور آزادی سے فیصلے دیں گی،
اپنے ججز کو دیکھتا ہوں وہ بھی یہی کر رہے ہیں، میری دعا ہے سب ادارے ایسے ہی اچھی طرح چلتے رہیں۔ اللہ کرے کورونا سے جلد جان چھوٹ جائے ،وبا کی وجہ سے مقدمات میں التوا بڑھا ہے ، اور بھی کوئی وجوہات ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں ہے، ہماری خواہش ہے کہ التوا ختم ہو اسکا نقصان سائل کا ہوتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا
تھا کہ ججز کی تعیناتی بارے میں آئین میں لکھا ہوا ہے، وہ دور بھی دیکھا ہے جب چیف جسٹس اپنے چیمبر میں بلا کر بتا دیتے تھے کہ ان ان کو جج بنانا ہے، اب جوڈیشل کمیشن میں ہر ممبر کو اپنی رائے دینے کا حق ہے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہمارا کام ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے، اگر ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں تو ہم حلف کی خلاف ورزی کریں گے، ہر شخص کے بنیادی حقوق ہر صورت ملنے چاہئیں۔