انقرہ (این این آئی)ترک میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں محکمہ صحت کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ ادویات کی قلت کا بحران ابھی تھما نہیں تھا کہ محکمہ صحت کے زیرانتظام چلنیوالے اسپتالوں سے منسلک ہزاروں ڈاکٹر مستعفی ہوگئے ہیں۔رپورٹ میں چونکا دینے والے اعدادو شمار بیان کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ
سال کے دوران سرکاری شعبے کے صحت کے اداروں میں تقریباً 8000 ڈاکٹروں نے مراکز صحت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ استعفیٰ دینے والے ڈاکٹرمختلف خصوصیات میں طبی خدمات فراہم کرتے ہیں۔اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جن ڈاکٹروں نے اپنا استعفیٰ جمع کرایا ان میں سے 10 فی صد ڈینٹسٹ تھے جنہوں نے وزارت صحت سے منسلک طبی مراکز، کلینک اور اسپتالوں میں کام کیا۔ اس کی وجہ سے کچھ مراکز، کلینکس اور اسپتال دانتوں کے ماہرین سیخالی ہوگئے۔ مقامی میڈیا کیمطابق سنڈیکیٹ آف ہیلتھ کے سربراہ طارق ایشمان نے ان اعدادوشمار کی تصدیق کی ہے۔ڈینٹل سنڈیکیٹ کے سربراہ کے مطابق صرف پچھلے سال 2020 کے دوران ایک ہزار سے زیادہ ڈینٹسٹس نے استعفیٰ دینے کے بعد پبلک سیکٹر میں اپنی خدمات ترک کر دی ہیں جس کی وجہ سے اس سال کچھ سرکاری مراکز، کلینکس اور اسپتالوں کو بند کرنا پڑا۔ترک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک ذریعے نے عرب ٹی وی کوبتایا کہ جن سرکاری مراکز
میں وہ کام کرتے ہیں ان کے ڈاکٹروں کے استعفوں کا سلسلہ اب تک نہیں رکا ہے، لیکن ان اداروں کے ڈائریکٹرز نے ان کے استعفے قبول کرنے میں تاخیر کی ہے۔ڈاکٹروں کے استعفوں کا سلسلہ صرف پبلک سیکٹر میں ہی نہیں، غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈاکٹر بھی اپنی کم تنخواہوں کی وجہ سے ملازمت چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔عرب ٹی وی
کو میڈیکل سینڈیکیٹ سے معلوم ہوا ہے کہ رواں ماہ جب ترک لیرا کی قیمت میں کمی آئی تو اس کے نتیجے میں ڈاکٹروں اورطبی عملے پر مزید بوجھ بڑھا ہے۔ترک میڈیا کے حوالے سے سنڈیکیٹ آف ڈینٹسٹ کے بیانات کے مطابق جن ڈاکٹروں نے سرکاری اور نجی اداروں سے اپنے استعفے جمع کرائے ہیں وہ ترکی سے باہر ملازمت کے مواقع حاصل کرنے یا نجی کلینک کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر سینڈیکیٹ کے ایک اہلکار نے اکتوبر میں انکشاف کیا تھا کہ تین ہزار سے زاید ڈاکٹر بیرون ملک ملازمت کے لیے ترکی چھوڑ چکے ہیں۔