بدھ‬‮ ، 20 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ملک میں انسانوں کی نہیں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے،چیف جسٹس

datetime 20  ‬‮نومبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے عدلیہ پر اداروں کا دباؤ ہونے کا تاثر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ عدالتیں آزاد نہیں اور اداروں کے دباؤ میں کام کررہی ہیں، ہم ایک حلف کے پابند ہیں، میں نے کبھی کسی ادارے کا دباؤ نہیں لیا اور نہ کبھی کسی کی بات سنی، مجھے نہ کسی نے گائیڈ کیا اور نہ ہی میں نے ڈکٹیشن لی کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں،

میں نے کبھی کسی کے کہنے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو آج تک مجھے کچھ کہنے کی جرات ہی ہوئی۔میں نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق فیصلے کیے، عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرتی ہے کسی کی مرضی سے نہیں کرتی، آج تک کسی کی ہمیں روکنے کی ہمت نہیں ہوئی، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پیدا کریں اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں، بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ہے ،سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں، ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کرنے میں آزاد ہے ،ہمیں روکنے کی آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی اور کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دبا ئوپر میں نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا، کسی نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی، کوئی مجھے گائیڈ نہیں کرتا کہ اپنا فیصلہ کیسے لکھوں؟، یہی کردار باقی سارے ججز کا ہے،لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پیدا کریں اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں، بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ہے؟،سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں،

ساری عدلیہ تندہی سے لوگوں کے فیصلے کررہی ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علی احمد کرد صاحب نے اگر میری عدالت کے بارے میں کوئی بات کی تو میں اس بات کو بالکل قبول نہیں کروں گا، میری عدالت میں جج انتہائی تندہی کے ساتھ ملک کی فلاح و

بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے علی احمد کرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ شائع ہونے والے فیصلوں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ کیسے سپریم کورٹ آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ عدالتیں آزاد نہیں اور اداروں کے دبا ئومیں کام کررہی ہیں، ہم ایک حلف کے پابند ہیں، میں نے کبھی

کسی ادارے کا دبا ئونہیں لیا اور نہ کبھی کسی کی بات سنی، مجھے نہ کسی نے گائیڈ کیا اور نہ ہی میں نے ڈکٹیشن لی کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں، میں نے کبھی کسی کے کہنے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو آج تک مجھے کچھ کہنے کی جرات ہی ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، میں

نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق فیصلے کیے، عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرتی ہے کسی کی مرضی سے نہیں کرتی، آج تک کسی کی ہمیں روکنے کی ہمت نہیں ہوئی، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پیدا کریں اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں، بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ہے؟۔جسٹس گلزار احمد نے

کہا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں، ساری جوڈیشری تندہی سے لوگوں کے فیصلے کررہی ہے، عدالتیں بغیر کسی دبا ئوکے کام کررہی ہیں، اپنے فیصلوں کیلئیکسی کی ڈکٹیشن لی نہ لوں گا، میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے، عدالتیں انصاف

وقانون کے مطابق کام کر رہی ہیں اور جو فیصلہ کرنا چاہتی ہیں وہ آزاد ہیں۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے علی احمد کرد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عدالتوں کے فیصلے پڑھنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بغیردبائو کے کام کرتے ہیں اورکرتے رہیں گے، پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے انسانوں کی نہیں، ملک میں آئین و قانون

اور جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے، کسی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے ، ہم عہدہ چھوڑ دیں گے، پہلے بھی چھوڑا ہے۔انہوںنے کہا کہ دنیا بھر میں اسی طرح فیصلے کیے جاتے ہیں، کہیں غلط فیصلے آتے ہیں کہیں صحیح فیصلے آتے ہیں، ہر ایک کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اپنے اختلاف کو ثابت کریں، یہی ہماری

عدلیہ کی خوبصورتی ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے خطاب میں کہا کہ آئین دو درجن سے زائد انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان میں آزادی صحافت، معلومات تک رسائی اور لڑکیوں کی تعلیم سمیت خواتین کے حقوق کو خطرات کا سامنا ہے۔انہوں نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج کی

سپریم کورٹ میں تعیناتی کا تذکرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر رہی ہیں اور ایک تقریب میں جہاں بھارتی مندوب بھی موجود تھے میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ آپ کے ملک میں بار ایسوسی ایشن کی صدر کوئی خاتون نہیں رہیں، اس لیے یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے۔جسٹس قاضی فائز

عیسی نے کہا کہ ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان واحد ملک ہے کہ جہاں پہلی وزیر اعظم خاتون مسلمان تھیں۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے سچ کو قبول نہیں کیا تو واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا۔انہوںنے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18-2017 کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک میں

سے پاکستان کا نمبر 130واں تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل معافی ہے، یہ میں نے اس لیے کہا کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مسودے پر دستخط کرنے والے 140 ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا اور لیاقت علی خان نے اس پر دستخط کیے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جمہوریت کی بھیک نہیں مانگیں بلکہ یہ

حق ہے کہ آپ جمہوریت کا مطالبہ کریں اور حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ سب سے افضل جہاد ظالم کے سامنے حق بات کرنا ہے۔انہوں نے ایک فیصلے کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر وزیر اعظم، قومی نشریاتی ادارے پر بطور پارٹی لیڈر بات کرتا ہے تو اپوزیشن کو بھی اس کا پورا حق ہے اور اگر اپوزیشن کو یہ موقع فراہم نہیں کیا

جاتا تو امتیازی سلوک یا رویہ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے مختلف ادوار میں جمہوریت کے خلاف آمرانہ اقدامات پر بھی بات کی۔انہوں نے مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں عدلیہ نے جمہوریت کے کاز کے تعین کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ کئی عدالتی فیصلے ماضی کا حصہ ہیں جنہیں مٹایا نہیں جا سکتا، ہم اپنا سر ریت میں نہیں چھپا سکتے،غلطیاں تسلیم کرنی چاہیے،اب مزید ماضی کی غلطیوں کو نہیں دوہرائیں گے ،انہوں نے کہا کہ جو جج آزاد ہو وہ پریشر میں آنے کا جواز نہیں لے سکتا ، ججز حلف کی خلاف ورزی نہیں کرتے

، ہم ایک حلف کے پابند ہیں، ججز پرانصاف کی فراہمی کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔طے کر چکا ہوں کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، میڈیا آزاد ہو تو عدلیہ آزاد ہوتی ہے۔قبل ازیں سینئر وکیل علی احمد کرد نے کانفرنس سے خطاب میں عدلیہ پر اداروں کے دباؤ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملک میں کونسی عدلیہ موجود ہے، وہ

عدالتیں جن میں ہم اور لاکھوں لوگ روز دادرسی اور انصاف کے لیے پیش ہوتے ہیں وہ اپنے سینوں پر زخم لے کر جاتے ہیں، یہ عدلیہ انسانی حقوق کا تحفظ اور جمہوریت کو مضبوط کرے گی،انہوں نے کہا کہ ’ملک کی عدلیہ میں تقسیم ہے، یہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک جرنیل اس عوام پر بھاری ہے، یا اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا

یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا، اب برابری ہوگی اور جرنیل اور ایک عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہوگا،ان کا کہنا تھا کہ ’اسی جرنیل نے ہماری عدلیہ کو دنیا کے 130 ممالک میں سے 126ویں نمبر پر پہنچا دیا ہے، ملک کا دانشور طبقہ کب سے ختم ہوچکا ہے اس لیے جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ چھوٹے قد کے لوگ ہیں،علی احمد

کرد نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے اور ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں گے جو 70 سال سے ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں، ملک میں اب کوئی قیادت نہیں رہی، جو بھی آئے گا وہ اور چھوٹے قد کا شخص ہوگا، یہ ملک جس حالت میں پہنچ گیا ہے، ملک کے عوام سے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں کیونکہ یہ ملک ہاتھوں سے ریت کے ذرات کی طرح ختم ہو رہا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ جن حالات کی طرف یہ جارہا ہے ہم اسے برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…