اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے کا مقصد کرپٹ نظام کو قبول کرنے کے مترادف ہے،عمران خان

4  ‬‮نومبر‬‮  2021

اسلام آباد(آن لائن)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کریشن کیخلاف لڑتا ہوں، اپوزیشن کے 2 بڑے خاندانوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میری تو ماضی میں ان کے ساتھ دوستی ہوا کرتی تھی، اپوزیشن لیڈر پر اربوں کے کیسز ہیں، ہاتھ ملانے کا مقصد کرپٹ نظام کو قبول کرنے کے مترادف ہے،جب کوئی تہذیب ترقی کرتی ہے تو اس کے رول ماڈل دانشور بن جاتے ہیں

کیونکہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کا قبلہ درست کرتے ہیں، موبائل فون بند نہیں کرسکتے لیکن بچوں کو رول ماڈل دے سکتے ہیں، ہمیں معاشرے کے لیے فکری انقلاب چاہیے، پاکستان میں سب سے زیادہ زیادتی کے جرائم بڑھ رہے ہیں،یہ جرائم بڑھنا ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان میں ’ایوان اعزاز‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ اپنے مسلمانوں کا سنہری دور شروع ہوا تو البیرونی اور ابن بطوطہ جیسے دانشوروں کا بڑا مقام تھا اور وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے ان کی بہت قدرومنزلت کی جاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی تہذیب ترقی کرتی ہے تو اس کے رول ماڈل دانشور بن جاتے ہیں کیونکہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کا قبلہ درست کرتے ہیں اور جب اسکالرز غلط راستے پر چلے جاتے ہیں تو تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں لہٰذا اگر دانشور درست رہنمائی کریں تو تہذیبیں زوال پذیر نہ ہوں لیکن اسکالرز بھی غلط راستے پر چلے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دانشور قوم کے نظریے کا تحفظ کرتے ہیں، علامہ اقبال کے ساری دنیا میں مسلمانوں پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ بے مثال تھے اور جو آج کے پاکستان میں دانشوروں کی بہت ضرورت ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں کو اسلام کی تاریخ کا ہی نہیں پتہ، لوگوں کو جنگیں یاد ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اتنا بڑا انقلاب جنگوں کی وجہ سے نہیں آیا،

اس انقلاب کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ان کا کہنا تھا نبی اکرمؐ کے دور میں 622 سے 632 ہجری تک 10سال کے دوران صرف 1400 لوگ جنگوں میں مرے تھے جس میں 600 مسلمان شہید ہوئے تھے اور ڈیڑھ سو مربع میل پر پھیل چکے تھے تو وہ تلوار سے نہیں آیا تھا بلکہ دراصل وہ فکری انقلاب تھا، لوگوں کے کردار بدل گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام کے اس فکری انقلاب کے بارے میں بتانا اب انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان پر اب میڈیا اور سوشل میڈیا کی یلغار کا سامنا ہے، انسانی تاریخ میں بچوں اور نوجوان کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا اور ان کے پاس زیادہ تر معلوماتی اور مثبت مواد ہے لیکن دوسرے ایسے مواد کا بھی سامنا ہے جس کا

انسانی تاریخ میں بچوں نے سامنا نہیں کیا۔ان کا کہنا تھاکہ اگر ہمیں نوجوانوں کو درست راہ پر رکھنا ہے تو اب دانشوروں کے ساتھ ساتھ فلم اور ٹی وی پروڈیوسرز کی بھی بہت زیادہ ذمے داری بنتی ہے، ہم میڈیا کو بند نہیں کر سکتے کیونکہ سوشل میڈیا حقیقت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کبھی کبھار مجھے شکایت آتی ہے کہ یوٹیوب یا ٹک ٹاک

پر کوئی ویڈیو نکل آئی ہے، ہم پی ٹی اے کو کہہ کر وہ بلاک کراتے ہیں تو اگلے دن کوئی اور مواد نکل آتا ہے، ہم اسے روک نہیں کر سکتے لیکن اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں اس طرح کے مواد سے انہیں کیسے نمٹنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بہت بری طرح نیچے گری ہے، نبی اکرمؐ

کے انقلاب کی بنیاد ہی اخلاقیات تھی کہ اچھا کو سراہا جائے اور برے کی مذمت کی جائے، جب ایک قوم اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے اور برائی کو تسلیم کر لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بہت بری طرح نیچے گری ہے، نبی اکرمؐ کے انقلاب کی بنیاد ہی اخلاقیات

تھی کہ اچھا کو سراہا جائے اور برے کی مذمت کی جائے، جب ایک قوم اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے اور برائی کو تسلیم کر لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کرپشن کو تسلیم کر بیٹھے ہیں، مجھے کہتے ہیں کہ آپ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتے، اس پر

اربوں روپے کے کیسز ہیں اور اگر میں اس سے ہاتھ ملاتا ہوں تو میں معاشرے کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ کرپشن بری چیز نہیں ہے۔وزیر اعظم نے کہا انگلینڈ میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جس رکن اسمبلی پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو اسے کوئی اینکر اپنے پیغام میں بلائے یا وہ اسمبلی میں دو، دو گھنٹے کی تقریر کرے کیونکہ ان کے

معیار ہم سے مختلف ہیں اور اس لیے میں نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی۔عمران خان نے کہا کہ رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے مقصد یہ ہے کہ ہم بچوں کو رول ماڈل دے سکتے ہیں اور بچوں کا رول ماڈل وہ ہے جو دنیا کی تاریخ کے سب سے عظیم لیڈر ہیں، ہمیں بچوں کو بتانا چاہیے کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر میں ایسی کونسی خوبیاں تھیں کہ

انہوں دو سپراوورز کے سامنے کھڑا کر کے دنیا کی امامت کرا دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے کی خلاف بہتر بنانی ہے تو ہمیں نبی اکرمؐ کی سیرت کے اوپر پروگرام کر کے بچوں کو متبادل پیغام دینا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاشرے کے لیے ایک فکری انقلاب چاہیے، ہمیں اخلاقیات چاہئیں، ہمارے لیے انتہائی شرمناک چیز

ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ زیادتی کے جرائم بڑھ رہے ہیں، تین سال پہلے زینب کیس ہوا تھا تو پورا ملک کھڑا ہو گیا تھا لیکن آج کل کہیں بچوں سے زیادتی تو کہیں عورتوں سے اجتماعی زیادتی ہو رہی ہے لیکن کوئی ردعمل نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ بڑی تعداد میں رونما ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلمیں

40سال میں بہت بدلی ہیں اور اس کے اثرات ان کے خاندانی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں، دلی کو زیادتی کیپیٹل کہا جاتا ہے اور اگر ہم وہی ثقافت اپنائیں گے تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا یہ دانشور کا کام ہے وہ معاشرے کی رہنمائی کریں اور متبادل طرز زندگی کے بارے میں بتائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت دانشوروں اور مصنفوں کی مکمل حمایت اور مدد کرے گی

اور میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کی رہنما کریں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ سب لوگ کہتے ہیں آپ کیوں دو بڑے خاندانوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں بلکہ میری تو ماضی میں ان سے دوستی ہوا کرتی تھی، میں کرپشن کے خلاف لڑتا ہوں میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، مجھے کہتے ہیں آپ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتے، اس پر اربوں کے کیسز ہیں، اگر اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملا لیا تو اس کامطلب ہے میں نے ان کی کرپشن تسلیم کرلی۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…