لاہور(این این آئی)وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے کیسز میں منی ٹریل سے متعلق شواہد تلاش کررہی ہے تاہم ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ وزارت داخلہ سے دونوں رہنماؤں کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست نہیں کریگی کیوں کہ اسے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔
میڈیارپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین گزشتہ ہفتے سے لندن میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’طبی معائنے‘ اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے لندن گئے۔جہانگیر ترین کو چینی اسکینڈل کے 3 مقدمات میں 5 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور دھوکا دہی کے الزامات کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے ان کا اور ان کے بیٹے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی کارروائی شروع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس ضمن میں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ چونکہ والد اور بیٹے دونوں کے ایف آئی آر میں ذکر کردہ رقم (5 ارب روپے) سے زائد کے اثاثے موجود ہیں اس لیے ادارہ حکومت سے ان کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے دونوں کی مشکوک ٹرانزیکشن کے سلسلے میں منی ٹریل سے متعلق شواہد تلاش کررہا ہے، یہ شواہد ان (دونوں رہنماؤں) کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے میں مددگار ثابت ہوں گے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے نام نو فلائی لسٹ میں شامل ہیں جنہیں ایف آئی اے کے شوگر اسکینڈل میں 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور دھوکے کے الزامات کا سامنا ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کو کچھ ماہ قبل اس وقت بھی ریلیف ملا تھا جب ایف آئی اے شوگر اسکینڈل اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں ان کے خلاف ’مجرمانہ شواہد‘ نہ ہونے پر
دونوں عدالتوں سے ان کی گرفتاری کی درخواست نہیں کی تھی۔کہا جارہا تھا کہ جہانگیر ترین کو ملنے والے ریلیف کی وجہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 40 اراکین اسمبلی کا دباؤ تھا جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے رہنما جہانگیر ترین کو ان کے مطابق جعلی کیسز میں انصاف نہیں دیا گیا تو وہ وفاق
اور مرکز میں بجٹ کے لیے ووٹ نہیں دیں گے۔اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے وزیراعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے کی تحقیقات کا ’تجزیہ‘ کیا تھا جس سے متعلق ترین گروپ کے ترجمان ایم این اے راجا ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں (جہانگیر ترین) کو ’کلین چٹ‘ دی تھی۔ترین گروپ نے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر جہانگیر ترین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔