اسلام آباد (آن لائن ) امریکہ میں مقیم پاکستانی اور پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لئے آئینی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کرنے والے حفیظ الرحمن چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف صدارتی نظام میں ہے۔پارلیمانی نظام اقلیت کی حکمرانی کا نظام ہے۔ موروثی، پیشہ ور اور پیسے کے بل بوتے پر سیاست کرنے والے جتھوں اور گروہوں سے غریب پاکستانی عوام کی نجات اسی نظام سے ممکن ہے
جبکہ پاکستان کو معاشی اور معاشرتی طورپر ترقی کی اس منزل سے ہمکنار کیاجاسکتا ہے جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ اسی نظام کے ذریعے سیاسی جوڑ توڑ اور حلقوں کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کی سیاسی بلیک میلنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ میں اس مقدمہ کی فوری سماعت کے لئے عدالت عظمی میں ایک درخواست دائر کررہا ہوں۔ وہ اتوار کو مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان کے مسائل اور عوام کی بدحالی کو دیکھتے ہوئے عملی قدم اٹھایا اور آئینی پٹیشن آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت ملک کے معروف آئینی وقانونی ماہر اور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل خالد عباس خان کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جس میں وفاق پاکستان، وزیراعظم، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان گورنرز اور وزراء اعلی کو فریق بنایاگیا ہے جو عدالت عظمی میں زیرالتوا ہے۔ اس پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمی وزیراعظم عمران خان کو ملک میں صدارتی نفاذ کے لئے ریفرنڈم کرانے کا حکم دیا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کی ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ کی صورت میں رائے جانی جائے اور اس کی روشنی میں ملک سے پارلیمانی نظام ختم کرکے صدارتی نظام رائج کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور اس کے عوام کو درپیش بحرانوں اور مسائل سے مستقل نجات کا راستہ صرف صدارتی نظام کے نفاد سے ہی نکل سکتا ہے۔
پارلیمانی نظام حکومت پاکستان کے لوگوں پر نافذ کرنے کے نتیجے میں ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو اس سیاسی انصاف سے محروم کردیاگیا ہے جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 2(a) میں فراہم کی گئی ہے۔ پارلیمانی نظام کی ناکامی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 1947 سے
آج تک پاکستان کے عوام کو سیاسی انصاف سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ان پر وہ سیاسی جماعتیں حکمرانی کررہی ہیں جو 51 فیصد سے کم مقبول ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ مثال کے طورپر حکمران جماعتوں نے 2008، 2013 اور 2018ء میں بالترتیب 25.6 فیصد، 32.7 فیصد اور 31.8 فیصد مقبول ووٹ حاصل کئے۔ اقلیت کی حکمرانی جمہوریت
کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ صدارتی نظام میں صدر، گورنر اور ضلعی مئیر کے لئے 51 فیصد ووٹ لینا لازم ہے۔ پارلیمانی نظام میں ہم مقننہ کے ارکان کو منتخب کرتے ہیں لیکن وہ انتظامیہ بھی بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو اپنی انتظامیہ اور قانون سازی کرنے والے افراد کو الگ الگ منتخب کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ صدارتی نظام
میں عوام کو اہلیت اور معیار کی بنیاد پر قانون سازی کرنے والے نمائندوں اور انتظامیہ کا الگ الگ انتخاب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ حفیظ الرحمن چوہدری کے مطابق پارلیمانی نظام پاکستان جیسے معاشرے میں سیاسی انتشار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو زبان اور مذہبی فرقوں میں تقسیم ہے۔ یہ سیاسی انتشار 2008، 2013 اور 2018 کے
انتخابات کے نتیجے میں ثابت ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نتائج ملک میں سیاسی انتشار کو ظاہر کرتے ہیں۔ حفیظ الرحمن چوہدری نے کہاکہ میں نے اپنی پٹیشن کے ہمراہ پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کا عملی خاکہ بھی معزز سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے۔ 1973ء کے آئین کا آرٹیکل 2(a) بیان کرتا ہے کہ ”ریاست اپنا
اختیار عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔“ آئین میں کوئی پابندی نہیں کہ انتظامیہ اور مقننہ صدارتی یا پارلیمانی نظام سے ہی منتخب کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 2(a) بیان کرتا ہے کہ ریاست کے اندر”قانون کے سامنے یکساں حق، مساوات وبرابری، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف اور اظہار
رائے، عقیدے وسوچ، عبادت واجتماع کی آزادی سمیت بنیادی حقوق کی قانون اور اخلاق عامہ کے تقاضوں کے مطابق ضمانت ہوگی۔“ حفیظ الرحمن چوہدری نے کہاکہ کسی ملک کے عوام کواگر سیاسی انصاف نہ ملے تو وہ معاشی اور سماجی انصاف بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ لہذا ملک عالمی سطح پر بھی سیاسی، معاشی اور سماجی
انصاف حاصل نہیں کرپائے گا۔ انہوں نے کہاکہ انڈیا کے آزادی ایکٹ مجریہ 1947 کے سکیشن 8 کے تحت حکومت ہند ایکٹ 1935 بعض تغیر وتبدل اور موافقت کے ساتھ عبوری آئین پاکستان بن گیا تھا۔ چونکہ 1935 کے ایکٹ کے اندر بعض شقیں موجود نہیں تھیں جو ایک آزاد ریاست کی آئینی حکومت کے لئے درکار تھیں لہذا ایک
نئی آئین ساز اسمبلی بنی تاکہ آئین بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ آئین سازی کا عمل 9 سال تاخیر کا شکار رہا جو بہت ہی افسوسناک صورتحال تھی۔ اس تاخیر کی وجہ ترجیحات کی کمی، سیاسی کھینچا تانی اور اسمبلی کے ارکان کے درمیان غیرضروری لڑائیاں اور تکرار تھی۔ انہوں نے کہاکہ حقیقت میں بعض ارکان پارلیمان نے آئین سازی کو
ذریعے کے طورپر استعمال کیا۔ وہ محلاتی سازشوں میں الجھے رہے اور اپنے فروعی مفادات کی خاطر کابینہ تحلیل کردیں۔ پاکستان کا نیا آئین بنانے کے بجائے ان کی توجہ نسل پرستی اور اپنے حلقوں کے معمولی مقامی معاملات پر مرکوز رہی۔درخواست گزار کے مطابق پاکستان نے کسی آئین کے بغیر 14 اگست 1947 کو جنم لیا۔
آئین کی غیر موجودگی 1971ء میں مشرقی پاکستان کے سقوط کی بنیادی وجہ تھی۔ درخواست میں کہاگیا کہ 1956 کا دستور ناجائز ہے کیونکہ اس کی منظوری1955 میں نامزد ہونے والی اسمبلی نے دی جبکہ 1962 کا دستور بھی ناجائز تھا کیونکہ اس کی منظوری ایک آمر (ایوب خان) نے دی تھی۔ یہ دستور عوام کی رائے کا مظہر
نہیں تھا۔ انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین میں حکومت منتخب کرنے سے متعلق سنگین ڈھانچہ جاتی سقم ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں 1977، 1999 اور 2007 کے قومی بحرانوں نے جنم لیا۔ 2007 سے 2009 کے دوران پاکستان میں چلنے والی عدلیہ کی تحریک کے نتیجے
میں سپریم کورٹ آزاد ہوئی۔ سپریم کورٹ کی ملک کے اندر اور باہر ساکھ بحال ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پاکستان کی سپریم کورٹ نے کرپشن کے خلاف ازخود (سوموٹو) کاروائی کی اور 28 جولائی 2017 کو وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو آئین کے
آرٹیکل 38 (d) کے تحت معاشی انصاف ملا اور اس نے پاکستان میں کرپشن کے بڑے مقدمات پر کارروائی کی راہ کھول دی۔انہوں نے کہاکہ صدارتی نظام میں ہر صوبے کے ہر فرد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے معیارات کی بنیاد پر مقبول ووٹ حاصل کرے۔ اس سے سیاسی انتشار کا خاتمہ ہوگا جو مذہبی یا لسانی فرقوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
موقف اختیار کیاگیا کہ پارلیمان میں تقریبا 25 فیصد خصوصی نشستیں قانونی کرپشن کی بنیاد ہیں اورپاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے (آرٹیکل 51(3))۔ پاکستان کے عوام کو ان کے سیاسی انصاف سے محروم کیاگیا ہے۔ صدارتی نظام میں پارلیمان میں کوئی خصوصی نشستیں نہیں ہوں گی۔ چوہدری حفیظ الرحمن نے کہاکہ سینیٹرز کا
بلاواسطہ انتخاب پاکستان کے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے جس میں ان کا ووٹ شامل نہیں کیاجاتا۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور وفاق کو مضبوط بنانے کے لئے سینٹ کا موافق انداز میں چلنا وفاق پاکستان کی تقویت کے لئے ضروری ہے۔ صدارتی نظام میں ارکان سینٹ کا براہ راست انتخاب ہوگا۔ موجودہ سینٹ کے پاس کم اختیار ہے جس
کے نتیجے میں وفاق کمزور ہے۔ (آرٹیکل 59(1))صدارتی نظام میں سینٹ زیادہ طاقتور ہوگی اور وفاق کو مضبوط رکھے گی۔ موجودہ پارلیمانی نظام میں آزاد حیثیت میں جیت کر آنے والے ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اپنی وفاداریاں فروخت کرتے ہیں اور ایک اکثریتی جماعت کو اقلیت میں بدل دیتے ہیں مثال کے طورپر
2018 کے پنجاب کے انتخابی نتائج کو ملاحظہ فرمائیں۔انہوں نے کہاکہ صدارتی نظام میں سیاسی جماعت کے ماسوا کوئی آزاد امیدوار نہیں ہوگا۔پارلیمانی نظام میں ضمنی انتخاب وقت اور سرمائے کا ضیاع ہے جس کابوجھ پاکستان کے عوام اٹھاتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں کوئی ضمنی انتخاب نہیں ہوگا۔ صدارتی نظام کے حق میں دلائل
بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے کئی نسلوں اور کئی زبانوں کے ملک میں صدارتی نظام زیادہ اتحاد پیدا کرتا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے۔ اس نظام کے ذریعے پاکستان کا کوئی بھی شہری جس میں عوام کے لئے کشش ہو، بہتر پالیسیاں اور اچھی ٹیم ہو تو وہ پاکستان کا صدر بن سکتا ہے۔
صدارتی نظام طاقتور سینٹ کے ساتھ ایک مضبوط وفاق بناتا ہے اور صوبوں میں مساوات لاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 سال میں وجود میں آنے والے زیادہ تر ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے۔ حفیظ الرحمن چوہدری نے کہاکہ صدارتی نظام میں صدر کو عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب کیاجاتا ہے اور اسے زیادہ مقبول ووٹ
ملتے ہیں۔ اس طرح سے صدر کا اختیار بلواسطہ نامزد ہونے والے رہنما کے مقابلے میں زیادہ جائز ہوتا ہے۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ صدارتی نظام کے تین بنیادی ستون ہیں۔ اختیارات کی اس تقسیم سے توازن رہتا ہے اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچا جاسکتا ہے۔ صدر، گورنرز اور ضلعی مئیرز وفاقی، ریاستی اور ضلعی سطح پر زیادہ بہتر اور موثرانداز میں اچھی حکمرانی فراہم کرسکتے ہیں۔ صدر کو آزادانہ اختیار ہوگا کہ وہ قابل اور اہل
افراد کو چن سکے اور انہیں اپنی کابینہ کا رکن بناسکے۔ صدارتی نظام کے ذریعے زیادہ بہتر قانون سازی کرنے والے افراد کولانے میں سہولت ہوگی جبکہ عدالتی نظام بہتر، شفاف اور فوری انصاف کی فراہمی کے قابل ہوسکے گا۔انہوں نے کہاکہ میری عدالت عظمی سے استدعا ہے یہ معاملہ وزیراعظم پاکستان کو بھجوایا جائے کہ وہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 48 (6) کے تحت ملک میں ریفرنڈم کرائیں اور ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ کے انداز میں رائے شماری کرائیں۔