پیر‬‮ ، 09 جون‬‮ 2025 

30 سال سے لندن میں ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے تو کیا ہمیں اجازت دیں گے کہ لندن میں ڈرون ماریں؟وزیراعظم عمران خان کا دوٹوک اعلان

datetime 30  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) وزیر اعظم عمران نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ہم امن میں امریکہ کا ساتھ دے سکتے ہیں ،جنگ میں نہیں، افغانستان کی جنگ میں 70ہزار لوگوں کی قربانی دی،150ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا ، پھربھی ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ترین جگہ قرار دے دیا ،جو وہ کہتے رہے ہم کرتے رہے،اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو حفاظت کون کرے گا؟30

سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشتگرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟،،شوکت ترین اور ان کی ٹیم نے پاکستان کے حوالے سے میرے وژن کے مطابق بجٹ تیار کیا، ہماری ٹیم نے مشکل فیصلے کئے، چیلنجز کا سامنا کیا اور نکلے،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ،پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ہم کورونا وبا سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے،اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیتاہوں،اپوزیشن کے پاس کوئی تجاویز ہیں تو سننے کیلئے تیار ہیں ، مسئلہ کاحل ای وی ایم مشین ہے ،ای وی ایم مشین ہوتو پولنگ ختم ہونے پر سب رزلٹ آجاتا ہے، اگر ہم اصلاحات نہیں کریں گے تو ہر الیکشن میں یہی سلسلہ ہوگا۔بدھ کو یہاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ سب سے پہلے اپنی پارلیمانی پارٹی اور اتحادیوں بجٹ میں بھرپور طریقے سے شرکت کر نے پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔وزیراعظم انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 1970کے بعد تمام انتخابات متنازع رہے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ حالیہ ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات میں بھی تنازع کا شکار رہے۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 2 برس میں ہم نے بہت کوشش کی کہ اس ضمن میں کیا اصلاحات کی جاسکتی ہیں کہ جو بھی الیکشن ہارے اس نتیجے کو قبول کرے، ہم نے اس سلسلے میں تجاویز بھی دی ہیں لیکن ابھی تک ان پر اپوزیشن کی بحث نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ یہ حکومت و اپوزیشن کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اپنی زندگی کے 21 سال میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل کر گزارے تو میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ملک اپنے اپنے امپائر کھڑے کرتے تھے اور جو ہارتا تھا وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے

ہمیں ہرادیا لیکن پاکستان وہ ملک تھا جس نے نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نا ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔وزیراعظم عمران خان نے

کہا کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہم نے کہا تھا کہ الیکشن درست نہیں ہوئے تو 133 میں سے 4 حلقوں کا مطالبہ کیا تھا کہ ان کا آڈٹ کیا جائے لیکن ان 4 حلقوں کو نہیں کھولا گیا تھا جس کے بعد 2 سے ڈھائی سال بعد کیس لڑکر ہم نے وہ حلقے کھلوائے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ 2013 کے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات ہیں۔عمران خان نے کہا کہ میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ

اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فوراً سامنے آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ سننے کیلئے تیار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اگر اصلاحات نہیں کرینگے تو پھر ہر الیکشن میں یہی سلسلہ ہوگا ۔امریکا کو فوجی اڈے دینے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا

حصہ بننے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں،اپنی زندگی میں پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جائیں گے، اس وقت اسمبلی میں

میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں۔عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا تھا امریکا بڑا ناراض ہے، اس کیلئے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ کہیں

بھی ہاتھ ماردے گا لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دیتی ہے؟عمران خان نے کہا کہ اپنے ملک سے 150 ارب ڈالر گئے ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ گیا کیونکہ یہاں تو کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی تو کوئی سرمایہ کار کیسے آتا یہاں تو انہوں نے ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ترین جگہ قرار دے دیا تھا جو وہ کہتے رہے ہم کرتے رہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی جنرل نے کتاب میں لکھا کہ

ہم جانتے تھے کہ مشرف کمزور تھا تو ہم اس پر دباؤ ڈالتے رہے، مشرف سے جو کہا کرنے کا تیار ہوگیا، اپنے لوگ پکڑ کر گوانتاناموبے بھجوایا، پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہوں نے پیسے لے کر لوگوں کو بھجوایا، مگر کس قانون کے تحت؟۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو ان کی حفاظت کون کرے گا؟انہوں نے کہا کہ بات یہاں تک نہیں رکی قبائلی علاقے میں تورا بورا کے بعد القاعدہ آگیا، قبائلی علاقے میں اوپن بارڈر تھا ہمیں انہوں نے حکم دیا کہ وہاں

اپنی فوج بھیجیں اور چند سو القاعدہ کے لیے ہم نے قبائلی علاقے میں اپنی فوج بھیج دی، وہاں ہمارے اپنے لوگ بھی تھے، اْدھر سے وہ ڈرون حملہ کریں تو ہمارے شہری مرجاتے اور فوج کو پتا ہی نہیں کس کے پیچھے جارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے قبائلی علاقے کی نصف آبادی نے نقل مکانی کی اور ابھی تک ریکور نہیں ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دہشت گردی کے خلاف

اس جنگ کی مخالفت کی تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا، جب میں کہتا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں تو طالبان کا حامی کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا ہمارا دوست ہے تو کبھی سنا ہے کہ آپ کا دوست اپنے ملک میں بمباری کررہا ہو، وہ آپ کا اتحادی ہے اور ڈرون حملے کررہا ہو اور ان حملوں میں جو لوگ مرتے تھے ان کے گھروالے جاکر پاکستانی فوج اور پاکستان سے

بدلہ لیتے تھے، اس طرح دونوں طرف پاکستانی مررہے تھے۔عمران خان نے کہا کہ میں جب کہتا تھا کہ کیوں اجازت دی ہے تو کہا جاتا تھا کیونکہ پاکستان ان کے پیچھے جارہا ہے لہذا ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔وزیراعظم نے سوال کیا کہ 30 سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں دی ؟’۔انہوں نے کہا کہ کیا ہم سب -ہیومن ہیں؟ آدھے انسان ہیں؟ ہماری جان کی اتنی قیمت نہیں؟ اجازت دی گئی اور لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ

ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ ذلت تھی کہ پہلے انہیں اجازت دیتے ہیں، پھر اتنا حوصلہ نہیں کہ لوگوں کو بتاتے بلکہ مذمت کی۔وزیراعظم نے امریکی سینیٹ میں ہونے والی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ایڈمرل سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں ڈرون حملے کیوں کررہے ہیں جب ان کی حکومت مذمت کررہی ہے تو انہوں نے کارل لیون کو جواب دیا تھا کہ ہم حکومت پاکستان کی اجازت سے کررہے ہیں اس پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت دوغلی کیوں ہے؟۔انہوں نے کہا کہ

ہم نے اپنے آپ کو ذلیل کیا، امریکا کو کیوں برا بھلا کہیں جب آپ نے خود اجازت دی ہو، آپ ان کی مدد کررہے ہیں، آپ کے لوگ مررہے ہیں ان کے لیے اور وہ آپ ہی پر بمباری کررہے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔بجٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارا وژن قوم کا عکاس تھا، خوشی ہے شوکت ترین اور ان کی ٹیم نے میرے وژن کے مطابق بجٹ بنایا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب 25سال پہلے ہم نے

پی ٹی آئی بنائی تو ہم نے جس چیز سے متاثر ہوکر یہ اقدام اٹھایا وہ نظریہ پاکستان تھا جس کی بنیاد اسلامی فلاحی ریاست تھی،یہ نظریہ ہمارے آبائو اجداد نے مدینہ کی ریاست سے لیا تھا جو دنیا میں پہلی فلاحی ریاست تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کو اس وژن کے مطابق نہیں ڈھالتے تو پاکستان کے قیام کا مقصد باقی نہیں رہتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے وژن کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اس مطالبے پر متفق تھے کہ مسلمانوں کے لئے

اپنا علیحدہ وطن ہونا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ مسلمانوں کے راستے میں جہاں بھی رکاوٹ آئی اس کی بنیادی وجہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں سے ہٹ جانا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کیا چیز تھی کہ جس کی بنیاد پر دنیا کی عظیم تہذیب کھڑی ہوئی، جب نبیﷺ مدینہ پہنچے تو وہاں انہوں نے جو اصول طے کئے وہ دنیا کی تاریخ ہے۔ انہوںنے کہاکہ 13 سال بعد بازنطینی سپر پاور نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے ،14 سال بعد پرشین نے گھٹنے ٹیکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی تہذیب دنیا کی سب سے

عظیم تہذیب تھی، آج بھی جدید دنیا اسی ماڈل پر بنی ہے۔ انہوںنے کہاکہ سائنس و میڈیسن سمیت ہر شعبہ اسی ماڈل پر آگے بڑھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب ہماری تہذیب پستی کا شکار ہوئی تو پھر ہم بھی نیچے آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کے سامنے انصاف ، انسانیت اور خودداری کے تین اصول تھے، ہماری کوشش تھی کہ ہماری حکومت کا یہ بجٹ انہی اصولوں کا عکاس ہو۔ اس پر پوری ٹیم کو خراج تحسین اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا جو 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا، اس وقت ہمارے پاس ٹیم اور تجربہ نہیں تھا، ہم نے معیشت کے استحکام کے لئے بڑے مشکل فیصلے کئے یہ بڑے تکلیف دہ تھے کیونکہ جب ایک گھر مقروض ہو جاتا ہے تو اسے اپنے اخراجات کم

اور آمدن بڑھانا پڑتی ہے اس کیلئے مسائل ہوتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گھر والوں کو مشکل وقت سے گزرنا پڑتا ہے، ہمارے لئے بھی یہ مشکل فیصلے تھے اس سے عوام کو بھی تکلیف پہنچی اور کہیں اب بھی عوام اس سے گزر رہے ہیں تاہم مشکلات کا شکار ملک میں ایسے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں،ترکی میں رجب طیب اردوان نے بھی ایسے ہی فیصلے کئے، اب ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری ٹیم نے مشکل فیصلے کئے، چیلنجز کا سامنا کیا اور اس سے نکلے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کے شکرگزار ہیں انہوں نے پاکستان کو

ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ جب کرنسی کی قدر گرتی ہے تو اس سے ملک میں مہنگائی آتی ہے، سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ شروع میں ان کی کوشش تھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں کیونکہ ان کی شرائط سے لوگوں کو مشکلات پیدا ہوتی ہیں تاہم ہمیں مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ہم ملکی معیشت کے چیلنج سے کامیابی سے نکل رہے تھے کہ کورونا کی وبا آگئی، جس کے اثرات ساری دنیا پر پڑے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسد عمر کی سربراہی میں

این سی او سی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس صورتحال میں بھرپور کردار ادا کیا، پاک فوج نے بھی بھرپور مدد کی۔ ڈاکٹر فیصل اپنی ماہرانہ رائے دیتے رہے کہ دنیا میں یہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم خوش قسمت قوم ہیں کہ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ہم کورونا وبا سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے، ان کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بچا لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال سے جس طرح ہم نکلے میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے غریبوں کی بات سنی،ہم اس لئے اس صورتحال سے نکلے کہ ہم نے بروقت مکمل لاک ڈائون نہ لگانے کا فیصلہ کیا،دنیا میں اب جب حقائق سامنے آرہے ہیں تو لاک ڈائون سے غریبوں کی مشکلات کے نتائج سامنے آئے ہیں، جہاں لاک ڈائون لگا وہاں غربت بڑھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ٹیرا کوٹا واریئرز


اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…