ہفتہ‬‮ ، 07 جون‬‮ 2025 

ملک میں 12، 13 ہزار ميگاواٹ بجلی اضافی پڑی ہے، علی محمد خان‎

datetime 27  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی نے وزارت توانائی کے 374ارب ،31کروڑ روپے سے زائد کے پانچ مطالبات زر کی منظوری دیتے ہوئے اپوزیشن کی 230سے زائد تحاریک مسترد کردیں ،اپوزیشن اراکین بجلی کی لوڈشیڈنگ پر حکومت پر برس پڑے اور کہا ہے کہ ملک بھر میں گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،کے الیکٹرک کراچی میں بدمست ہاتھی ہے،وزیراعظم پٹرولیم لیوی کو جگا ٹیکس کہتے تھے،

اب حکومت خود پٹرولیم لیوی بڑھا رہی ہے،پیپلز پارٹی کو دس گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ملا،مسلم لیگ ن کو اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ورثے میں ملی،سرکولر ڈیٹ میں اضافہ روکنے کے حوالے سے حکومت کوئی اقدامات نہیں کر سکی،وزیر تبدیل کرنے سے ادارے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی،،موٹر ویز یا بجلی کے کارخانے لگانے تو دور کی بات ،تین سال میں کوئی ایک حکیم یا نائی کی دکان کھولی ہو تو بتا دیں ،عوام کو چور کہہ دینے سے بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوگاجبکہ وزیر مملکت علی محمد خان نے اپوزیشن کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہاہے کہ گردشی قرضے میں مہنگی بجلی کا بہت کردار ہے ،ٹرانسمیشن لائنز 27 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی نہیں اٹھا سکتی ،آپ نے ٹرانسمیشن لائنز میں انوسٹ نہیں کیا ،اوور بلنگ کا ایشو آپریشنل مسئلہ ہے،ملک میں بجلی کی پیداواری استعداد کار 37 ہزار میگاواٹ ہے ،11 جون کو 23 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی ،آپ کی بارہ تیرہ ہزار میگاوٹ بجلی اضافی پڑی ہے،آپ نے مہنگی آئی پی پیز لگا دیں ،عمران خان کے دور میں ڈیمز پر کام شروع ہوا ہے ، جلد منصوبے مکمل ہو جائیں گے۔ ہفتہ کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے وزارت توانائی کے مختلف شعبہ جات کیلئے 5مطالبات زر پیش کئے اپوزیشن کی جانب سے مطالبات زر پر 230سے زائد پیش کر دہ کٹوتی کی تحاریک مسترد کر دی گئیں تاہم ایوان نے وزارت توانائی کے 374ارب ،31کروڑ روپے سے زائد کے پانچ مطالبات زر کی منظوری دیدی ۔ اپوزیشن کی جانب سے رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے توانائی ڈویژن کی کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اس وقت ملک میں گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے،کے الیکٹرک کراچی میں بدمست ہاتھی ہے،وزیراعظم پٹرولیم لیوی کو جگا ٹیکس کہتے تھے،اب حکومت خود پٹرولیم لیوی بڑھا رہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔شاہدہ رحمانی نے کہاکہ سندھ میں سی این جی اسٹیشنز کو ایک ہفتے کیلئے بند کردیا گیا ہے،یہ قدم کراچی کی ترقی اور کارخانوں کو روکنے کی سازش ہے،کراچی بند ہوگا تو پورے ملک کی ترقی رک جائیگی۔ انہوںنے کہاکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 30 روپے ہوچکی ہے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے چوہدری ریاض الحق نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو دس گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ملا،مسلم لیگ ن کو اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ورثے میں ملی، مسلم لیگ ن 12 ہزار میگاوٹ بجلی پیدا کرکے گئی لیکن یہ حکومت لوڈ شیڈنگ واپس لے آئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ بجلی کی قیمت آج آسمان کو چھو رہی ہے ، اس میں سب سے بڑا کردار انکی نا اہلی کا ہے۔حنا ربانی کھر نے کہاکہ حکومت توانائی سیکٹر کی اصلاحات میں ناکام پوچکی،عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ 2020 تک سرکولر ڈیٹ ختم ہوجائیگا،تین سال میں سرکولر ڈیٹ 1.6 ٹریلین سے بڑھ کر 2.8 ٹریلین تک پہنچ چکا ہے،سرکولر ڈیٹ میں اضافہ روکنے کے حوالے سے حکومت کوئی اقدامات نہیں کر سکی،وزیر تبدیل کرنے سے ادارے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی،ٹیوب ویلز پر بجلی ٹیرف 7.9 روپے

فی یونٹ ہوچکا ہے جس سے کسان کے اخراجات میں اضافہ ہوا،حکومت توانائی کے شعبے میں قابل تجدید ذرائع استعمال کرنے میں ناکام رہا،اج بھی توانائی کے شعبے میں نیپرا کی اجارہ داری جاری ہے،کیا بجٹ میں حکومت 610 ارب کی پٹرولیم لیوی کی کوئی وضاحت دے سکتی ہے؟اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 30 روپے تک اضافہ ہوگا،بجلی کی ترسیل کے فرسودہ نظام سے لائن لاسز میں اضافہ ہوا جو عوام کو ادا کرنا پڑتا ہیپاور سیکٹر سے لوگوں کے جبری نکالا جارہا ہے جس سے

بیروزگاری میں اصافہ ہورہا ہے۔شازیہ مری نے کہاکہ اس وقت ملک میں بجلی کا بدترین بحران ہے،لوڈشیڈنگ پاکستانی عوام کیلئے ناسور بن چکی ہے،حکومت سے درخواست کی تھی ہماری بجلی سے متعلق کٹوتی تحاریک کو مسترد نہ کرے،حکومت نے پھر بھی ہماری بجلی سے متعلق کٹوتی تحاریک کو مسترد کیا،عوام کو چور کہہ دینے سے بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس وقت سرکولر ڈیٹ 2.8 ٹریلین تک پہنچ چکا ہیہر ماہ ریکارڈ 40 ارب روپے کے بجلی لاسز ہورہے ہیں،پٹرولیم لیوی کی مد میں 610 ارب روپے کا ڈاکہ عوام کی جیب پر مارنے کی تیاری ہے،سندھ کی انڈسٹریز کو گیس کی فراہمی معطل کی جارہی ہے۔انہوںنے

کہاکہ سانگھڑ میں سب سے زیادہ گیس نکل رہی ہے،پیٹرولیم لیوی ڈاکہ ہے جسے بند ہونا چاہیے۔ علی گوہر بلوچ نے کہاکہ وزیر خزانہ بتا دیں کہ کونسی بجلی کا پلانٹ ہمارے دور میں مہنگا لگا اور ان کے دور میں سستا لگا ہو ،موٹر ویز یا بجلی کے کارخانے لگانے تو دور کی بات ،تین سال میں انھوں نے کوئی ایک حکیم یا نائی کی دکان کھولی ہو تو بتا دیں ،انھوں نے ہمارے منصوبوں پر تخیاں لگانے کے سوا کیا کام کیا،ہمارے دور سے پہلے کے بجلی کے پلانٹ بند پڑے ہیں ، بتائیں کہ اگر ہم مہنگے پلانٹ لگا گئے تو وہ ہم سے پہلے کے پلانٹ سے بجلی کیوں نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ایل این جی کا بحران ہے

، ندیم بابر ایل این جی مد میں کتنے ارب ڈالر کا ڈاکہ ڈال کر گیا ہے اس کا حکومت جواب دے۔آغا رفیع اللہ خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ تین سال ہوچکے ہیں ملیر گڈاپ کاٹھوڑ وہ علائقے ہیں جو ملک سے پہلے آباد تھے تاہم کراچی ملیر میں ایک انچ کی گیس لائین نہیں دے رہے ہیںرات کو گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، کراچی پر کچھ رحم کریں اس میں آپ کو جعلی مینڈٹ دیا گیا اس کا ہی خیال کریں،کراچی میں گیس کی لائینوں میں پانی آ رہا ہوتا ہے،لائنوں کی مرمت نہیں کی جاتی۔خورشید احمد جونیجو نے کہاکہ 15 ہزار میگا واٹ سرپلس بجلی دکھائی گئی ہے تاہم پورے ملک میں خصوصی طور سندھ میں لوڈشیڈنگ زیادہ ہے،

سندھ میں تو 24 گھنٹوں تک بجلی نہیں ہوتی،سندھ میں ٹرانسفارمر نہیں ملتے،پولز گر جاتے ہیں لائنز ناکارہ ہیں، متبادل بجلی سے 30 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سندھ میں ونڈ سے کافی بجلی مل سکتی ہے اس پر پالیسی بنائی جائے، سوئی گیس 60 فیصد پیدا کی جاتی ہے اس میں لائین لاسز بھی زیادہ ہیں لیکن پریشر نہیں ہے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ان کی آٹھ کٹوتی کی تحاریک ہیں،چترال میں بجلی سے متعلق مسائل ہیں جو حقیقی ہیں،چترال میں ٹرانسفارمروں کا مسئلہ ہے،جب ٹرانسفارمر

جل جاتا ہے تو مقامی لوگوں سے 500 یا 1000 روپے گھرانہ چندہ لیا جاتا ہے،چترال میں ٹرانسفارمروں کا سٹور بھی ختم کردیا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ چترال میں اس سٹور کو بحال کیا جائے اور اس میں موبائل ٹرانسفارمر ہونا چاہیے،چترال میں 19 ہزار صارفین کے لئے دو میٹر ریڈرز ہیں،بجلی کے بل مہینوں بعد آتے ہیں، چترال میں گرڈ سٹیشن کے قیام کے لئے پی ایس ڈی پی میں فنڈز مختص کئے جائیں۔ سید محمود شاہ نے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں گرمی کی لہر جاری ہے، زیادہ گرمی والے علاقوں میں بجلی نہیں

آتی جبکہ بجلی کے بل بہت زیادہ آرہے ہیں۔ بلوچستان کے نصف دیہاتوں میں بجلی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم اور گیس کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ جن علاقوں سے گیس نکلتی ہے ان علاقوں کو گیس کی فراہمی میں اولیت دینی چاہیے۔ میر منور تالپور نے کہا کہ گردشی قرضہ 2.5 ٹریلین تک بڑھا ہے، تھرپارکر اور میرپور خاص میں بجلی کے ٹرانسفارمروں کا مسئلہ ہے، بجلی کے بلوں پر

پینالٹی عائد کی جاتی ہے۔ چند لوگ بل نہیں دیتے اور اس پر پورے علاقے کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔ ہمارے علاقوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔پارلیمانی امور کی وزیر علی محمد خان نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ گردشی قرضوں کا مسئلہ موجود ہے، گردشی قرضے میں مہنگی بجلی کا بڑا ہاتھ ہے، 2013 میں آئی پی پیز کو 848 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی

جس میں استعمال شدہ بجلی کی قیمت 636 ،استعدادی ادائیگیاں 183 ارب روپے تھیں۔ انہوںنے کہاکہ 2018 میں استعمال شدہ بجلی پر آئی پی پیز کو 78 فیصد ادائیگیوں کی شرح تھی،اس وقت 42 فیصد استعمال شدہ بجلی کی قیمت ادا کی جارہی ہے ،58 فیصد کی ادائیگیاں استعدادی ہیں، مہنگی بجلی اور کپیسٹی پیمنٹ کی وجہ سے گردشی قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 37ہزار 200 میگاواٹ کی بجلی کی استعداد موجود ہے ،ہماری ٹرانسمیشن لائنیں 23600 میگاواٹ

بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ13000میگاواٹ بجلی ہم استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے مہنگے آئی پی پیز کو انسٹال کیا تاہم اس کے لئے ترسیلی لائنوں پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ہمارے گرڈ سٹیشنوں کی استعداد 23 سے لے کر 24 ہزار میگاواٹ ہے۔ ٹرانسمیشن لائنوں پر سرمایہ کاری نہ کرنا مجرمانہ غفلت تھی کیونکہ ان میں کک بیکس کی

گنجائش نہیں ہوتی۔ علی محمد خان نے کہا کہ جاری مالی سال کے اختتام پر ہم نے آئی پی پیز کو 1494 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے اس میں صرف 635 ارب کی ادائیگیاں استعمال شدہ بجلی کی ہیں۔انہوںنے کہاکہ 860ارب روپے ہم نے اس بجلی کے ادا کرنے ہیں جو ہم نے استعمال ہی نہیں کی ہے اور یہ سب ہمارے اپوزیشن کے دوستوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشنل مسائل کی وجہ سے اووربلنگ کا مسئلہ ہے، اس پر ہماری نظر ہے،ماضی کی حکومتوں نے ضرورت سے

زیادہ بھرتیاں کیں۔ ٹرانسفارمروں کی مرمت کے لئے موجودہ حکومت نے جامع اقدامات کئے، ہماری حکومت آئی تو ملک میں ٹرانسفارمروں کی مرمت کے لئے صرف تین بڑے ورکشاپس سکھر، لاہور اور نوشہرہ میں تھے۔ موجودہ حکومت نے اس پر توجہ دی۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت میپکو میں تین، حبکو میں دو، آئیسکو میں دو اور کیسکو میں ایک ورکشاپ انسٹال ہو چکا ہے۔ پیسکو کے تحت چھوٹے چھوٹے

ورکشاپ بنائے گئے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہاکہ تین برسوں میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے 17 لائسنس جاری کئے گئے، 76 کنوئوں کی کھدائی کی گئی اور 39 نئی ڈسکوریز ہوئی ہیں۔ حکومت کے الیکٹرک کی استعداد میں اضافے کے لئے کام کر رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اگست 2020 میں کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے 450 میگاواٹ اضافی بجلی کے الیکٹرک کو فراہم کرنے کی منظوری دی۔ انہوںنے کہاکہ کے الیکٹرک کے 78 فیصد خدمات والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ میں کمی لائی گئی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ متبادل توانائی کی پیداوار میں اضافہ وزیراعظم کا وژن ہے،سورج 2018 سے پہلے بھی طلوع ہوتا رہا تاہم ماضی کی حکومتوں نے متبادل اور شمسی توانائی کے حصول پر توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت نے 2019 میں متبادل توانائی کی پالیسی تیار کی اس وقت ہوا سے بجلی بنانے کے 24 منصوبوں سے 1235 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ بارہ مزید منصوبے آرہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ شمسی توانائی کے چھ منصوبوں سے 430 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے،

چار مزید منصوبوں پر کام تکمیل کے قریب ہے۔ انہوںنے کہاکہ شوگر ملوں سے بھی بجلی حاصل کی جارہی ہے، خیبرپختونخوا میں چھوٹے چھوٹے ہائیڈل پراجیکٹس شروع کئے گئے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پہلی مرتبہ 1960 کی دہائی کے بعد مہمند ڈیم، دیامیر بھاشا اور داسو پر کام شروع کیا ہے اور یہ منصوبے جلد مکمل ہوں گے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ٹیرا کوٹا واریئرز


اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…