کراچی (آن لائن) پاکستان اور بالخصوص کراچی میں متواتر گیس بحران اور اسے قابو پانے کیلئے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور حکومت کی اپنی ہی کاروباری پالیسوں کے متضاد اقدامات اور ایکسپورٹرز کو سازگار اور قابل عمل کاروباری ماحول سے محروم رکھنے کے باعث ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے اپنی انڈسٹریز کو بیرون ملک
منتقل کرنے پر غور و خوض اور منصوبہ بندی کرنے کی خاطر ایکسپورٹرز کے مطالبہ پر ایک کمیٹی تشکیل دیدی۔مذکورہ کمیٹی کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان ممالک میں رابطہ اور گفت و شنید کریں جہاں بہتر اور ایکسپورٹ دوست پالیسیاں اور سازگار ماحول ایکسپورٹرز کو میسر ہے جہاں ان ممالک کی حکومتیں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور اپنی مقامی صنعتوں کو پرکشش مراعات دے رہے ہیں۔معروف ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی ایک کثیر تعداد نے یہ فیصلہ گذشتہ روز پی ایچ ایم اے میں ہونے والے اہم اجلاس میں کیا۔پاکستان اپیرئل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ اجلاس کو بتا یا گیا کہ 11جون سے کراچی کی ایکسپورٹ انڈسٹریز کو گیس کی فراہمی سے محروم رکھا گیا ہے اور گیس کا پریشر صفر ہے۔سال 2020-21کے 322کام کے دنوں میں سے99دن کراچی کی انڈسٹریز کو گیس کا پریشر صفر یا انتہائی کم تھا۔جن ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے پاس آرایل این جی کے کنکشنز ہیں اور جو اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل کیلئے 1533روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ پر ادائیگی کر رہے ہیں انہیں بھی گیس دستیاب نہیں۔ گیس صنعتوں کیلئے خام مال کا درجہ رکھتی ہے جو دستیاب نہ ہو گا تو صنعتیں کیسے چلیں گی؟حکومت کی ناقابل عمل پالیسیوں اور گیس کے حوالے سے وزارت پیٹرولیم اور ایس
ایس جی سی ایل کی ناقص منصوبہ بندی اور بدانتظامیوں کی وجہ سے مستقبل میں بھی کو موقع دکھائی نہیں دیتا کہ کراچی کی ایکسپورٹ انڈسٹریز کو بلاتعطل اور مطلوبہ پریشر کے مطابق گیس دستیاب ہو گی۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور انھیں یکے بعد دیگراپنے کاروبار کی چلانے کیلئے
مشکلات اور مسائل کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی انڈسٹریز کو بیرون ملک منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جہاں وہ عزت، وقار، ذہنی سکون اور آسانی کے ساتھ اپنا کاروبارکرتے ہوئے اسے مزید وسعت دے سکیں جو انہیں ملک میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔