مانسہرہ(آن لائن، این این آئی)سنٹرل جیل ہری پور میں جمیعت علماء اسلام کے قید راہنما مفتی کفایت اللہ کو عوامی احتجاج پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہری پور منتقل کیا گیا۔جہاں ڈاکٹروں کی ماہر ٹیم نے ان کا تفصیلی طبی معائنہ کیا گیا۔دائیں آنکھ متاثر ہونے کی وجہ سے بائیں آنکھ پر اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔جس کی بناء پر آنکھ کے آپریشن کے
لئے lRBT ریڑھ عطر شیشہ مانسہرہ تجویز کیا گیا۔اس موقع پرعلماء سے بات چیت کرتے ہوئے مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ ریاستی اداروں کی ایماء پر جیل انتظامیہ کے نامناسب رویے نے مجھے انتہائی اقدام پر مجبور کیا۔کیونکہ ڈاکٹروں نے 16اپریل کو دائیں آنکھ کا آپریشن تجویز کیا تھا لیکن جیل انتظامیہ اپنے خفیہ آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے غیر انسانی اور غیر اخلاقی روپہ اختیار کیے ہوئے تھے۔جس کا ڈھائی ماہ تک صبر کیا گیا۔آخر مجبور ہو کر بھوک ہڑتال شروع کر دی۔جس جماعتی قائدین کے حکم پر ختم کیا۔مفتی کفایت اللہ نے جماعتی قائدین اور کارکنان سمیت تمام علماء، وکلاء، صحافیوں، تاجروں، سیاسی و سماجی تنظیموں اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر بیک آواز احتجاج کرتے ہوئے میرے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔واضح رہے کہ سنٹرل جیل ہری پور میں جمعیت علما اسلام کے قید راہنما مفتی کفایت اللہ نے ریاستی اداروں کی ایما پر جیل انتظامیہ کے شروع دن سے غیر انسانی اور غیر اخلاقی روپے کے خلاف 24جون بروز جمعرات 7بجے صبح سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔جیل سے ٹیلی فون پر اپنے بھائی اور بیٹے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔انہوں نے کہا کہ
مفتی کفایت اللہ عارضہ قلب، شوگر، آنکھوں، دانتوں اور دیگر کئی امراض میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹروں کی تجویز کردہ علاج میں تاخیر کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ ضائع اور دوسری کے ضائع ہونے کا امکان ہے۔جبکہ دل، شوگر اور دانتوں کے ڈاکٹروں نے بھی مختلف علاج تجویز کئے ہیں لیکن علاج کی اجازت نہیں دی جا تی۔اور نہ ہی ملاقات
کی اجازت ہے جبکہ جیل مینول کے مطابق ان کے خلاف ایسا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔جس میں ملاقات پر پابندی ہو۔یہ اقدامات صرف ریاستی اداروں اور جیل انتظامیہ کی بدمعاشی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔مفتی کفایت اللہ کے بھائی قاضی حبیب الرحمن اور بیٹے حافظ حسین کفایت نے خبردار کیا ہے کہ اگر مفتی کفایت اللہ کو کچھ ہو گیا تو ذمہ دار جیل انتظامیہ اور ریاستی ادارے ہوں گے۔