اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ روایتی طور پر ہر مالی سال کے اختتام پر وفاقی حکومت پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن و صوبائی دارالحکومتوں کے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن و دیگر کئی بار ایسوسی ایشن کو ”گرانٹ ان ایڈ”کے
مد میں معمول کے مطابق سالانہ ایک متعین رقم وزارت قانون و انصاف کے توسط سے دیتی آئی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس داخل کرنے کے بعد جون 2018 میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و پاکستان بار کونسل سمیت کئی دیگر بار ایسوسی ایشنز و بار کونسلوں کی اس ریفرنس کے خلاف واضح موقف اور مزاحمت کی وجہ سے ان اداروں کے قانونی استحقاق کو مجروح کرتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے وکلاء کے نمائندہ اداروں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و پاکستان بار کونسل کو نظرانداز کرتے ہوئے مشروط پیشکش کی کہ اگر وہ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں تو معمول کے گرانٹ ان ایڈ سے کہیں زیادہ رقم وصول کرسکتے ہیں مگر الحمد و للہ اس پیشکش کو مجھ سمیت پاکستان بار کونسل نے 2018 سے لیکر آج تک پزیرائی نہیں دی مگر وفاقی حکومت اس وقت سے آج تک ہر سطح پر وکلاء کے اداروں کے امداد کے نام پر سیاسی
رشوت اور ان کے اوپر عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کرنے کی مشروط امداد کی کوششیں قابل افسوس اور ملک کے آزاد بارز کی خود مختاری پر حملہ اور ناروا قدغن آئین و قانون سے ماورائے و قابل گرفت ہیں ،مزید براں لاہور بار کے ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے ایسی ہی قرارداد
ہمارے موقف کی تائید ہے کہ کچھ افراد مجموعی قومی و ملکی مفاد کے اجتماعی مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر وقتی مفادات کے طابع چند سکوں کی خاطر خوشامدانہ قراردادیں منظور کرنا متعلقہ بار کی بے توقیری و عدلیہ کی آزادی و بلوچستان کے حق پر اپنی نادان پست ذہنیت کی عکاس سطحی اقدام قابل افسوس ہے جس پر سرینا عیسیٰ کی تشویش بھی قابل لحاظ و توجہ و پزیرائی ہے ۔