ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیراعظم نے برصغیر میں مہنگی ترین بجلی پاکستان میں پیدا ہونے کا اعتراف کر لیا

datetime 31  مئی‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر لانگ ٹرم پلاننگ کے بجائے الیکشن سے الیکشن تک کی پلاننگ کریں گے تو قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی،ہر شعبے میں طویل المدتی منصوبہ بندی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے ملک پیچھے رہنے لگا، 60 کی دہائی میں جو امید تھی وہ کم ہوتی چلی گئی،ڈیمز بننے سے 10

ہزار میگا واٹ کلین انرجی ملے گی، 2023 تک ملک میں 10 ارب لگائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ماحول کے ساتھ سیاحت پر بھی مثبت اثر پڑیگا، صحت کے شعبے میں ایک انقلابی چیز ہیلتھ کارڈ لارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں نجی شعبے کے ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا۔اسلام آباد میں واپڈا کی جانب سے ملک کے پہلے گرین یورو بانڈ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس بانڈ کے اجرا سے 50 کروڑ ڈالر کا قرض ملا۔دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق گرین یورو (انڈس بانڈ) دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی فنانسنگ کیلئے جاری کیا گیا اور یہ بانڈ ریاستی ضمانت کی بجائے واپڈا کی مستحکم مالی پوزیشن کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں دیکھ رہا ہوں کہ کئی چیزوں پر عمدرآمد تاخیر کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیمز کی دہائی یعنی 10 سال کے عرصے میں ہم وہ کام کرنے جارہے ہیں جو ہمیں 50 سال پہلے کرنی چاہیے تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ 1968 میں پاکستانی کی معیشت ایشیا میں چوتھے نمبر پر تھی، ابھی جو ممالک ایشین ٹائیگرز ہیں یہ سب ہم سے بہت پیچھے تھے اور سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان ایشیا کا کیلیفورنیا بننے جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اور

اس کی وجہ ہماری منصوبہ بندی تھی پاکستان میں طویل المدتی پلاننگ کی جارہی تھی اور ملک کے 2 بڑے ڈیمز اسی دوران تعمیر ہوئے کیوں کہ آئندہ آنے والئے نسلوں کے لیے سوچ تھی۔انہوں نے کہا کہ طویل المدتی منصوبہ بندی وہ ہوتی ہے جو ہم اپنے بچوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، پہلے سے سوچا جاتا ہے کہ دنیا کس طرف جارہی

ہے کیوں بچے ایک الیکشن کی مدت میں مستقبل کیلئے تیار نہیں ہوتے اس کے لیے لمبی پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہر شعبے میں طویل المدتی منصوبہ بندی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے ملک پیچھے رہنے لگا اور 60 کی دہائی میں جو امید تھی وہ کم ہوتی چلی گئی۔انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی تک جب میں بھارت سے

کرکٹ کھیل کر پاکستان واپس آتا تھا تو لگتا تھا ایک غریب ترین ملک سے امیر ترین ملک میں آگیا ہوں اس وقت ان دونوں ممالک میں اتنا فرق تھا۔انہوں نے کہاکہ 1985 کے بعد ملک نیچے جانا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارت ہم سے آگے نکلا گیا تاہم سب حیرت انگیز چیز بنگلہ دیش کی ترقی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب مشرقی

پاکستان ہم سے جدا ہوا اس وقت ہم عام طور پر سنتے کہ ہمارے اوپر بوجھ ہے وہاں سائیکلون آجاتا ہے، تباہی مچ جاتی ہے اور جب وہ علیحدہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ اب پاکستان ترقی کرے گا تاہم گزشتہ 30 برسوں میں بنگلہ دیش بھی پاکستان سے آگے نکل گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ کسی قسم کی طویل

المدتی منصوبہ بندی نہیں تھی، ہم نے بجلی بنائی وہ بھی مختصر مدت کی پلاننگ پر اور بدنیتی کے ساتھ بنائی گئی جس کی وجہ سے برصغیر میں سب سے مہنگی بجلی ہماری ہے۔انہوں نے بتایا کہ ملک میں آئندہ 10 برسوں میں 10 ڈیمز تعمیر ہوں گے جن سے نہ صرف اضافہ 10 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی بلکہ ماحول دوست بجلی

پیدا ہوگی، اس وقت سب کو سوچنا چاہیے کہ ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ خطرات کا شکار ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا ملک گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے اس لیے ہمیں آج سے ہی آنے والی نسلوں کا سوچنا چاہیے کہ ہم ان کی زندگی بہتر بنانے کے لے کیا اقدامات کریں بجائے اس کے کہ

ہم ان کے لیے وہ پاکستان چھوڑ کر جائیں جو ان کے لیے عذاب ہو۔انہوں نے کہا کہ ڈیمز بننے سے 10 ہزار میگا واٹ کلین انرجی ملے گی، 2023 تک ملک میں 10 ارب لگائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ماحول کے ساتھ سیاحت پر بھی مثبت اثر پڑے گا، 15 نیشنل پارکس بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملک کے تعلیمی نظام میں پہلی

مرتبہ ایک نصاب لے کر آرہے ہیں، اب تک ٹکڑوں میں بٹا ہوا تعلیمی نظام تھا جس سے پاکستان میں متحد ہو کر ایک قوم بننے کے بجائے 3 مختلف نصاب کی وجہ سے 3 مختلف قومیں بن رہی ہیں جس کے بہت برے اثرات ہیں اور بنیاد پرستی بھی اسی سے جنم لیتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلی مرتبہ ملک میں دینی مدارس کو بھی مرکزی دھارے میں لایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ صحت کے شعبے میں ایک انقلابی چیز ہیلتھ کارڈ لارہے ہیں جس کی

وجہ سے ملک میں نجی شعبے کے ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا اور یہ صرف ہیلتھ کارڈ نہیں ہیلتھ سسٹم ہے جو مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی معیشت مستحکم کرلی لیکن قرض چڑھے ہوئے ہیں جو اس وقت اتریں گے جب ملک میں دولت کی پیداوار ہوگی جس کے لیے ہم تعمیراتی منصوبے بنائے جارہے ہیں، صنعت کو فروغ دیا جارہا ہے، زراعت میں ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لیکن اس سے بھی آگے جانا ہے یہ سب طویل المدتی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…