حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے حضرت علی اکبرؓ جب میدان کار زار میں تشریف لائے تو لشکر میں ایک سناٹا چھا گیا۔ حضرت علی اکبرؓ اٹھارہ سال کی عمر شریف رکھتے تھے اور شکل و شمائل میں حضورؐ سے بہت مشابہ تھے۔ آپ کا حسن و جمال و جلال دیکھ کر دشمن متحیر ہو گئے،حضرت علی اکبرؓ میدان میں پہنچتے ہی رجز خواں اور مبارز طلب ہوئے اور جب کوئی سامنے نہ آیا تو آپ نے خود ہی
لشکر میں گھس کر حملہ کر دیا اور دشمنوں کو درہم برہم کر دیا اور کافی دیر تک لڑتے رہے اور پھرپیاس کے باعث حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیاس کا ذکر کیا۔ حضرت امامؓ نے ان کے چہرے کا گرد و غبار صاف کرکے رسول اللہؐ کی انگشتری ان کے منہ میں ڈال دی، جس کے چوسنے سے انہیں تسکین ہوئی اور پھر میدان میں آئے اور اکثر کو واصل جہنم کرنے کے بعد آپ پھر ایک مرتبہ حضرت امامؓ کے حضور آئے اور پیاس کا ذکر کیا تو حضرت امامؓ نے اس وقت رو کر فرمایا کہ جانِ پدر! غم نہ کھا عنقریب تم حوضِ کوثر پر سیراب ہو گے۔ علی اکبرؓ یہ بشارت سن کر پھر میدان کی طرف تشریف لائے اور دشمن کے لشکر میں گھس کر بہت سوں کو واصل جہنم کیا۔ دشمنوں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا اور ایک ظالم ابن نمیر نے آپ کو ایسا نیزہ مارا کہ آپ کی پشت مبارک سے پار ہو گیا اور آپ گھوڑے سے گر گئے اس وقت آپ نے حضرت امامؓ کو پکارا اور فرمایا: ’’ابا جان! اپنے علی اکبر کی خبر لیجئے۔‘‘ حضرت امامؓ نے اپنے لختِ جگر کی یہ آواز سنی تو آپ دوڑے اور میدان میں جا کر دیکھا کہ علی اکبرؓ زخموں سے چور زمین پر گرے ہوئے ہیں۔ حضرت امامؓ نے وہاں بیٹھ کر بیٹے کا سر اپنے زانو پر رکھا۔ حضرت علی اکبرؓ نے آنکھیں کھول کر کہا ’’ابا جان! وہ دیکھئے! دادا جان دو پیالے شربت کے لیے کھڑے ہیں اور مجھے ایک دے رہے ہیں میں کہتاہوں کہ مجھے دونوں دیجئے کہ بہت پیاسا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک تو پی دوسرا تیرے باپ حسینؓ کے لیے ہے کہ وہ بھی پیاسا ہے۔ یہ پیالہ وہ آ کر پئے گا یہ کہا‘‘ اور آپ وہیں راہی جنت ہو گئے۔